Friday, February 4, 2011

سرے راہ

تحفظ ناموس رسالت قانون میں اضافے کے بل کی واپسی کے حوالے سے شیری رحمان نے کہا ہے، وزیراعظم کے فیصلے کا احترام کروں گی۔ شیری کو اپنے پیغمبرؐ کا کہناماننا چاہئے یا وزیراعظم کا، اس کا فیصلہ اُس نے خود ہی کرلیا ہے، گویا شیری نے یہ پھیری دی ہے کہ وہ وزیراعظم کے فیصلے کا احترام کرینگی ازخوداُن کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا، شیری شیر بننے کی کوشش نہ کریں اس راہ میں کئی گیدڑ بن کر شہر کی راہ لے چکے ہیں اور گیدڑ جب شہر کا رخ کرتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے یہ بھی کوئی بھلے مانس عاشق رسول رکن اسمبلی اُسے سمجھادے اگر پھر بھی وہ نہ سمجھی تو حسبِ سابق اُن سے محمدؐ کا خدا نمٹ لے گا۔اگر وہ وزیراعظم کوراضی کرنا اتنا کارثواب سمجھتی ہیں تو جو رسول اللہ کو راضی کرتے ہیں اُن کے مقابلے میں اس کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے، یوں لگتا ہے کہ شیری کے اندر اب بھی ایک کسک سی باقی ہے یہ تو اچھا ہوا کہ وزیراعظم کے فیصلے پراسے طوعاً و کرہاً یہ بل واپس لینا پڑا ،شیری اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنے روشن خیالانہ جذبات اجاگر کرکے اپنی زلفِ پریشاں کی طرح پاکستانیوں کے جذبات منتشر کرنا چاہتی ہے، شیری پر یہ مصرع صادق آتا ہے کہ آئینے کو لپکا ہے، پریشاں نظری کا، کیا شیری میں آسیہ کی روح پرواز کرنے سے پہلے سرایت کر گئی ہے، احترام نبی کی پرواہ نہیں تو اپنی زندگی اور عاقبت ہی کی پرواہ کرلے۔
٭…٭…٭…٭…٭
سٹیٹ بینک نے اعلان کردیا ہے کہ پانچ سو کے پرانے نوٹ یکم اکتوبر کے بعد قابلِ استعمال نہیں رہینگے۔
یوں تو وطن عزیز میں سارے نوٹ قابلِ استعمال نہیں رہے کیونکہ اکثر چیتھڑے بن چکے ہیں بہر حال یہ تو ایک الگ بات تھی مگر پانچ سو کے پرانے نوٹوں کو یوں طلاق مغلظہ دینا درست نہیں اس طرح کتنے ہی بے خبر لوگوں کی دولت ضائع ہوجائے گی، سٹیٹ بینک کو اس سلسلے میں نادر شاہی حکم جاری نہیں کرناچاہئے تھا کوئی تفصیلی لائحہ عمل دیا ہوتا کہ یہ نوٹ کہاں کہاں تبدیل ہونگے، ظاہر ہے اگر کسی کے پاس بڑی مقدار میں یہ نوٹ ہونگے تو وہ انہیں اکتوبر تک کیسے استعمال کرے گا کیونکہ سٹیٹ بینک کے اعلان کے بعد لوگ تو ابھی سے اس نوٹ کو لینے سے انکار کردینگے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پرانے نوٹ خیرات کردئیے جائیں ضرورت مند فی الفور انہیں اکتوبر سے پہلے خرچ کردینگے یہ کیا تماشا ہے کہ جو بھی آتا نوٹ بدل دیتا ہے، نوٹوں کو اور لوگوں کو بدلنے میں فرق ہی نہ رہا، ایک مرتبہ سیلاب آیا ایک بادشاہ وقت ڈوبنے لگا اُس نے ملاح کو آوازدی ،ملاح نے قریب آکر پوچھا کیا دوگے بادشاہ نے کہا اگر تم نے مجھے بچا لیا تو تخت پر بیٹھ کر پہلا حکم دوں گا کہ تمہیں ایک دن کیلئے وزیراعظم بنایاجاتا ہے ،الغرض ملاح نے بادشاہ کو بچا لیا اور بادشاہ نے اُسے ایک دن کیلئے وزیراعظم بنادیا، ملاح نے پہلا حکم یہ دیا کہ نوٹوں اور سکوں پر میری تصویر چھاپی جائے اور اسے کوئی نہیں بدل سکے گا بہر صورت سٹیٹ بینک سے جس نے یہ فیصلہ کرایا ہے وہ ضرور ڈوبنے والے بادشاہ کو بچانے والے ملاح کا رشتہ دار معلوم ہوتا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭
فیصل آباد میں خواجہ سرا کی سالگرہ پر فحش رقص اور جام چھلکتے رہے، شائقین نے لاکھوں روپے نچھاور کئے، انتظامیہ بھی مستی میں ڈوب گئی، ڈی ٹائپ کالونی کے شادی ہال میں خواجہ سرا عرفان عرف چندا نے طوفان بد تمیزی برپا کردی، نرگس کا جل کی چار لاکھ میں بولی، ایک اہم شخصیت نے چند ا کی بولی لگائی آرگنائزر ٹوکن پر بکنگ کرتا رہا ہر شخص ساتھ لے جانے کیلئے بے قرار تھا۔
ہمیں تو فیصل آباد کی خواتین پر ترس آرہا تھا کہ وہ کہاں جائینگی کچھ اپنا ٹھکانہ کرلیں چندا نامی خواجہ سرا کی سالگرہ تو ایک بہانہ تھی اصلی مقصد تو خواجہ سرائوں کی بکنگ تھی ہمیں معلوم نہ تھا کہ فیصل آباد کے امراء اپنی دولت خواجہ سرائوں پر لٹا کر اپنے لئے سامانِ آخرت جمع کرتے ہیں، خواجہ سرا اکثر اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں مگر وہ خواتین کے حقوق سلب کررہے ہیں اس کا انہیں خیال نہیں، خواجہ سرا کنجریوں اور عصمت فروشی کا کردار ادا کرنے کے بجائے شریفانہ پیشے کیوں اختیار نہیں کرتے، کیا گمراہی پھیلانے کیلئے ہماری وینائیں کافی نہیں جو مینائیں بن کر چھلکتی ہیں، پاکستان میں فحش رقص عصمت فروشی اور شراب نوشی پر پابندی ہے مگر جہاں انتظامیہ بھی اتنی کورذوق ہوکر ہیجڑوں کے ہجوم میں مست ہوگئی وہاں پابندی کی پرواہ کون کریگا، شائقین نے صرف مستی و خرمستی پر ہی اکتفا نہ کیا اپنی اپنی پسند کی انجمن، انار کلی، مادھوری، سونیا وغیرہ کو پہلو میں دبا کر ساتھ بھی لے گئے ایک اسلامی ملک میں اس طور سے بیہودگی و فحاشی کی اجازت تعجب خیز ہے
٭…٭…٭…٭…٭
وکی لیکس کو نوبل امن انعام کیلئے نامزد کردیا گیا۔
وکی لیکسکو نوبل امن انعام کیلئے نامزد کرنا سمجھ سے بالا تر بھی ہے اور سمجھنے کے لائق بھی، وکی لیکس جس نے پوری دنیا میں زلزلہ برپا کردیا اُسے امن نوبل پرائز سے نوازنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومتوں کا کچا چھٹا بیان کردینے میں ہی امن پنہاں ہے، بعض اوقات سانپ کا زہر ہی تریاق ثابت ہوتا ہے، وکی لیکس نے ہر بڑی سے بڑی شخصیت کے کپڑے اتار کر رکھ دئیے اور اچھی بری سب باتیں طشت ازبام کرکے دنیا میں ایک طرح سے امن کے قیام کا حل پیش کیا یہ کام بڑا مشکل ہے اور یہ وکی لیکس کی جرأت و جسارت ہے کہ اُس نے پردہ نشینوں کو بے پردہ کرکے دنیا میں بد امنی پیدا کرنے کے محرکات کو بے نقاب کردیا اب کم از کم ہر فرمانروا کو یہ ڈرتو لگا رہے گا کہ اگر اُس نے کہیں بھی کوئی منفی کارروائی کرنے کی کوشش کی تو وہ دھرلیاجائے گا اور اُس کا امن کو برباد کرنے کا منصوبہ ناکام رہے گا، منٹو نے کہا تھا کہ میری افسانہ نگاری ایسی ہے جیسے کوئی شخص کالے کیچڑ کے ڈھیر کے پاس پتھر لیکر بیٹھا ہو اور جب بھی محلے کا کوئی معتبر شخص سفید کپڑے پہنے وہاں سے گذرے تو وہ ایک پتھر اُس غلاظت کے ڈھیر میں پھینک دے تاکہ اُس کے صاف کپڑے گندے ہوں تو شاید اُسے اُس ڈھیر کو وہاں سے ہٹانے کا خیال آجائے، آخر کوئی تو ہوگا جو اُس کی سنگ زنی سے راستے کو صاف کرادے گا، شاید وکی لیکس کا بھی یہی کردار ہے ،اس لئے نوبل امن پرائز دینے میں حرج نہیں۔

No comments:

Post a Comment