Friday, February 4, 2011

LOVE TO HUMANITY


معاملہ صرف پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کا ہے!…نقش خیال…عرفان صدیقی




دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی، ری
منڈ ڈیوس کے حوالے سے تناؤ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ تناؤ دونوں ممالک کے درمیان تصادم کی شکل اختیار کرسکتا ہے؟ کیا امریکہ اپنےای شہری کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے؟ کیا دنیا کی سب سے طاقتور اور خون آشام ریاست، اسے پاکستان کو ایک سبق سکھانے کا جواز بنا سکتی ہے؟کیا پاکستان ہمہ پہلو دباؤ کا مقابلہ کرسکے گا؟ کیا وفاقی حکومت پورے عزم کے ساتھ حکومت پنجا ب کے ساتھ کھڑی ہوجائے گی؟
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی یہ ہے کہ قتل کی یہ واردات لاہور میں ہوئی۔ معاملہ پنجاب اور شہباز شریف سے آپڑا۔ اگر یہ واقعہ اسلام آباد یا وفاقی حکومت کے براہ راست زیر اثر علاقے میں پیش آیا ہوتا تو صورت حال قطعی مختلف ہوتی۔ میں یہ بات کسی بدگمانی یا قیاس آرائی نہیں، ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ گزشتہ برس ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے دو سفارتکار اسلام آباد کے ایک ناکے پر پکڑے گئے۔ ان کے پاس ہینڈ گرنیڈز، جدید ترین رائفلیں اور اسلحہ کی ایک کھیپ تھی۔ تھانہ سیکریٹریٹ میں ایف آئی آر کے بجائے ایک عمومی نوعیت کی شکایت درج ہوئی۔امریکی سفارتخانے کے ایک ملازم سنی کرسٹوفر نے معاملے میں براہ راست مداخلت کی۔ خبروں سے اندازہ ہوا کہ شاید ایک بڑا اسکینڈل سامنے آنے کو ہے کہ ڈنمارک، امریکیوں کو ممنوعہ اسلحہ کی فراہمی کا ایک ذریعہ بنا ہوا ہے۔ لیکن دو دنوں کے اندر اندر مطلع صاف ہوگیا۔ نہ کوئی مقدمہ درج ہوا، نہ تحقیق و تفتیش ہوئی نہ بات آگے بڑھی۔ اسلام آباد کے حکمرانوں نے گوروں کی خوشنودی خاطر کے لئے سب کچھ قالین کے نیچے چھپا دیا۔
یہ جون 2009ء کا ذکر ہے۔ پشاور سے آنے والی ایک ڈبل کیبن گاڑی کو اسلام آباد کی گولڑہ چیک پوسٹ پر روکا گیا۔ گاڑی رکنے کے بجائے تیزی سے کروٹ بدل کر آگے گزر گئی۔ پولیس نے اسے مشکوک خیال کرتے ہوئے اگلی چیک پوسٹ کو خبردار کردیا۔ جی نائن فور کے خیبر چوک پر گاڑی روک لی گئی۔ گاڑی سے تین امریکن برآمد ہوئے۔ انکے نام جیفری، جیفڈک اور جیمز بل بتائے گئے۔ بینڈک نامی ڈرائیور بھی امریکی تھا۔ ان سب نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور چہروں پر داڑھیاں تھیں۔ ان سے چار ایم ۔4 ، مشین گنیں اور چار نائن ایم ایم کے پسٹل برآمد ہوئے۔ فوراً پولیس کے حکام بالا اور سرکار کو آگاہ کیا گیا۔ فرمان جاری ہوا کہ انہیں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کردو۔ کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ باز پرس کی نوبت آئی نہ یہ پتہ چل سکا کہ افغانوں جیسا حلیہ رکھنے والے یہ اسلحہ بردار امریکی کس مشن پر تھے۔
یہ 5اگست 2009ء کا ذکر ہے۔ اسلام آباد پولیس کا انسپکٹر حاکم خان، اپنی بیوی کے ہمراہ ، اپنی گاڑی میں سوار امریکی سفارت خانے کے قریب بنی چیک پوسٹ کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ ایک امریکی اہلکار جان آرسو نے گاڑی روک لی۔ وہ میاں بیوی کو بڑا بھلا کہنے اور گالیاں دینے لگا۔ پولیس انسپکٹر نے کہا…”آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ ایک پبلک شاہراہ پر گاڑیاں روک کر چیک کرتے پھرو؟“ امریکی نے اپنی کمر سے پسٹل نکالا اور انسپکٹر پر تانتے ہوئے کہا ”میں کچھ بھی کرسکتا ہوں“۔ انسپکٹر حاکم خان نے واقعے کی باقاعدہ رپورٹ اپنے حکام بالا کو دی لیکن کوئی ایف آئی آر درج ہوئی نہ تحقیق و تفتیش کی ضرورت محسوس کی گئی۔
اس واقعے کے صرف ایک ہفتہ بعد، 12اگست 2009ء کو سفارتی انکلیو میں رہنے والا ایک نوجوان، اپنے دو دوستوں کے ہمراہ سوزوکی گاڑی میں امریکی سفارت خانے کے سامنے والی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے کنارے ایک امریکی جوڑا واک کررہا تھا۔ امریکی جوڑے نے کار روک کر لڑکوں سے تلخ کلامی کی۔ اس کی گاڑی کا سائیڈ مرر توڑ دیا۔ انہیں گالیاں دیں۔ تینوں نوجوانوں نے اس رویے پر احتجاج کیا۔ اس پر امریکیوں نے انہیں قریبی چیک پوسٹ پرموجود امریکی سیکورٹی گارڈز کے حوالے کردیا۔ وہ چالیس منٹ تک غیر قانونی حراست میں رکھے گئے۔ انہیں اس شرط پر رہائی ملی کہ وہ کبھی اس سڑک پر گاڑی نہیں چلائیں گے۔ کوئی شکایت، کوئی ایف آئی آر نہ کٹی۔
اس واقعے کہ دو ہفتے بعد 26اگست 2009ء کو دو امریکیوں نے شیل پٹرول پمپ سپر مارکیٹ کے مالک محسن بخاری کی گاڑی روک لی۔ معاملہ شاید ڈرائیونگ میں کسی بے احتیاطی کا تھا۔ امریکیوں نے تلخ کلامی کی۔ محسن بخاری کو پکڑ کر اس کے پٹرول پمپ لے آئے۔امریکی سفارتخانے کا ایک سیکورٹی اہلکار بھی وہاں پہنچ گیا۔ دیر تک خوف و ہراس کی کیفیت کے بعد محسن بخاری کی گلو خلاصی ہوئی۔ محسن پیپلزپارٹی کے سینیٹر نیر بخاری کا قریبی عزیز ہے لیکن معاملہ وہیں ٹھپ کردیا گیا۔
دو دن بعد 28اگست 2009ء کو کشمیر ہائی وے پر پشاور موڑ کے قریب اسلام آباد پولیس نے دو گاڑیوں کو روکا۔ ایک پراڈو تھی اور دوسری ڈبل کیبن۔ ان میں چار امریکن تشریف فرما تھے۔ چاروں کے پاس ایم۔4 رائفلیں تھیں اور ایمونیشن بھی۔ دونوں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس جعلی تھیں۔ چاروں نے بتایا کہ وہ امریکی فوجی ہیں۔ ان کے پاس اسلحے کا کوئی لائسنس تھا نہ سفارتخانے کا کوئی اجازت نامہ۔ ایک افغان باشندہ احمداللہ بھی ان کے ہمراہ تھا۔جس نے بتایا کہ وہ امریکی سفارت خانے میں قیام پذیر ہے۔ پولیس اہلکاروں نے اسلام آباد کے بڑوں کو اطلاع کی اور معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔
اور یہ جون 2010 ء کا ذکر ہے۔ امریکی ریاست کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والا گیری بروکس فاکنر نامی ایک شخص چترال سے گرفتار ہوا۔ اس کی تلاشی لی گئی۔ ایک پسٹل، ایک خنجر، چالیس انچ لمبی تلوار اور اندھیرے میں دیکھنے والی خصوصی عینک برآمد ہوئی۔ اس نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ برس کے دوران وہ سات بار پاکستان آچکا ہے۔ تمام حقائق اسلام آباد کے حاکموں کے علم میں لائے گئے۔ حکم صادر ہوا کہ شہنشاہ عالم پناہ کی بارگاہ اقدس سے تعلق رکھنے والے معزز مہمان کو عزت و احترام کے ساتھ امریکی سفارتخانے پہنچا دیا جائے۔
یہ اور اس طرح کے درجنوں دوسرے واقعات نے امریکیوں کے حوصلے بڑھا دیئے۔ جعلی پلیٹوں والی بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر جدید اسلحہ سمیت مٹر گشت کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اسلام آباد ان کا گڑھ بنا ہوا ہے۔ سیکڑوں مکانات اب ان کی تحویل میں ہیں اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کرگزرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ریمنڈ ڈیوس کی بدنصیبی ہوئی کہ وہ لاہور میں پکڑا گیا۔ آن واحد میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو خبر دی گئی۔ ہدایت دو ٹوک اور واضح تھی…”مجھے قاتل کے نام اور قومیت سے کوئی غرض نہیں۔ اسے گرفتار کرو اور ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر قتل کا باضابطہ مقدمہ درج کرو۔ اسلام آباد یا کہیں سے بھی کوئی دباؤ آئے تو مجھے بتاؤ۔ اسی شام شہباز مقتولین کے گھروں میں پہنچے اور کہا۔ کسی پاکستانی کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ اگلے دن امریکی سفیر نے میاں نواز شریف کو فون کرکے واقعے پرمعذرت کی اور کہا۔ ریمنڈ ایک سفارتکار ہے ۔ اسے چھوڑ دیا جائے ۔ ہم امریکہ میں اس پر مقدمہ چلائیں گے“۔ نواز شریف نے مختصر سا جواب دیا۔ ایکسی لینسی! پوری پاکستانی قوم رنج و غم میں مبتلا ہے۔ معاملہ عدالتوں تک جاچکا ہے۔ آپ ہمارے نظام قانون و انصاف پر اعتماد کریں اور قانون کو اپنا راستہ لینے دیں۔
اگر ریمنڈ یہی کچھ اسلام آباد وفاقی حکومت کے حلقہ اثر میں کرتا تو وہ گرفتار ہوتا نہ مقدمہ چلتا۔ کم از کم ماضی کی وارداتیں یہی بتاتی ہیں۔ اب بھی خطرہ ہے کہ وفاقی حکومت یا دفتر خارجہ قانونی عمل پر اثر اندازنہ ہوں۔ انہیں چاہئے کہ سیاست سے بے نیاز ہو کہ اس معاملے کو قومی حوالے اور پاکستان کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ حکومت پنجاب کا بھرپور ساتھ دیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے موقف اور حکمت عملی میں بال برابر فرق نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صرف پاکستان کی حاکمیت اعلیٰ کا معاملہ ہے۔
You might also like:

Asif Zardari got married to Tanveer Zamani in Dubai

Asif Zardari got married to Tanveer Zamani according to Muslim Shiyat Bylaws in Dubai last week. The ceremony has not been held. However the marriage religious vows, paper work and prenuptials have been confirmed. Nine black goats, 6 cows and 1 camel was sacrificed at this sacred occasion. This happened 3 years after the assassination of Slain Bhutto. She is a Mediterranean descent American resident, and she lives in Gramercy Park, Manhattan, New York. Zamani is a practicing physician and known to be a Bhutto party loyalist. She earned PhD degree in International Politics from UK. She owns estates in London, Dubai, Islamabad and Manhattan. Zamani is a known Democrat and supported Obama’s 2008 election campaign. She actively participated in Obama’sHealth Care reform bill to make it a law. Recently, she has been prohibited to attend the public political meetings due to her security issues. Pres. Zardari in a meeting with Obama on 1/14/11 in DC, requested his help in acquiring security for Zamani. Zardari is the widower of Benazir Bhutto, who twice served as Prime Minister of Pakistan. When his wife was assassinated in December 2007, he became the Chairman of the PPP. It has been claimed that Zardari is among the four richest men in Pakistan. In the 1988 elections, Bhutto became Prime Minister, and Zardari became a member of the National Assembly of Pakistan. Zardari’s opponents began using the nickname, “Mr 10%”, in reference to the charges of corruption against him. This nickname referred to kickbacks he was alleged to have received during his wife’s premiership. He served in Jail from 1990 -1993 and 1997-2004. It has been noticed that with the advent of Zamani in his life for the last 8 months, he has been changed a lot. A lot has been blogged about them on the web. He seemed to find refuge in trusting her loyalty to him more than the party. The couple might have faced many domestic, social and political issues before they decided to turn this long distance, under cover- relationship into a life time partnership. It is welcomed as a wise decision since it is according to their religious perquisites and he needs a loyal partner in his life who could support him spiritually, physically and financially at his worse times. To choose a life partner might be a difficult decision for him before meeting Zamani, but she made it an easy shot to play since she seems not someone who would marry him for his assets and power. Pres. Zardari made a good deal to marry an American citizen, since next time he would not go to a prison , he will be pulled out by her to Manhattan. It is presumed that the couple will be officially announced at the end of his political Presidency term. Obviously, not until after the next elections. Will the party or Zardari loose a lot of popularity he cashed after the death of his ex- wife? Or Zamani will give him a new fame, name, and a life with the happiness that he never found in the last one. His children Bakhtawar , Bilawal and Aseefa must understand the needs of their father who after taking care of their mother’s party has already proven his Loyalty to Bhuttos. Now, its their turn to let him move on with Zamani and spend in Manhattan a life he deserves. Many media analyst are still trying to find an evidence before they jump into this leak. They wonder what is behind this marriage; Love, political move or Wealth. The event was supposed to be an undisclosed sentinel secret, but it is released through a fashion designer company by a UAE news agency The fact is none of the parties have denied this leaked news yet.http://news.hubpk.com/2011/02/asif-zardari-married-tanveer-zamani-dubai/







احسن تقویم

سورۃ التین میں فرمایا‘ (ترجمہ) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طور سینین کی اور اس شہر امن کی‘ بلاشبہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق فرمایا۔ پھر اسے پست ترین سے پست مخلوق کی طرف موڑ دیا۔ سوائے انکے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے‘ تو ان کیلئے ایسا اجر ہے‘ جس میں کمی نہیں کی جائے گی۔ (التین: ۱ تا ۶)۔ 
اللّہ پاک جب کسی چیز کی قسم کھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے بطور ثبوت پیش فرما رہے ہیں۔ اس سورۃ میں ارشاد یہ ہے کہ اللّہ تعالٰی نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق فرمایا ہے۔ یعنی اس میں جملہ صلاحیتوں کا نہایت حسین امتزاج ہے اور وہ بلند ترین مراتب کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر اس میں پست ترین مخلوق سے بھی پست تر حالت میں گرنے کا رجحان بھی موجود ہے اور اس کے ثبوت میں چار چیزیں پیش کیں۔ التین سے مراد وہ جگہ جہاں نوحؑ وعظ و نصیحت کرتے رہے۔ وہاں عیسٰیؑ نے مشہور پہاڑی کا خطبہ دیا۔ طور وہ جگہ ہے جہاں حق تعالٰی نے موسیٰؑ کو شرف تکلّم سے نوازا۔ شہر امن مکہ مکرمہ ہے جہاں ہمارے رسولؐ پاک تشریف فرما ہوئے۔ حضرت نوحؑ اور حضرت عیسیٰؑ میں ایک گونہ مشابہت ہے کہ دونوں کے وعظ و نصیحت سے بہت کم لوگ ایمان لائے۔ موسیٰؑ اور جناب رسولؐ پاک میں ایک گونہ مشابہت ہے۔ حضرت موسیٰؑ بھی صاحب شریعت تھے۔ سورۃ المزمل میں ارشاد ہے (ترجمہ) ’’بے شک ہم نے تمہاری طرف رسولؐ بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔‘‘ (الزمل: ۵۱) 
ان قسموں سے حضرت نوحؑ اور عیسیٰؑ اور موسیٰؑ اور جناب رسولؐ پاک کو بطور شواہد پیش فرمایا کہ ان شخصیتوں کو دیکھ لو۔ بلاشبہ انسان کی تقویم احسن ہے اور جن لوگوں نے ان حضرات کی مخالفت کی تھی‘ نوح کی قوم کے سردار‘ عیسٰیؑ کے یہودی دشمن‘ فرعون اور مکہ کے سردار ابوجہل‘ ابولہب اور ولید بن مغیرہ وغیرہ وہ پست ترین مخلوق سے بھی پست ہو گئے تھے۔ البتہ جو لوگ پیغمبروں پر ایمان لائیں اور اچھے اعمال کریں ان کیلئے ایسا اجر ہے جس میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے گا یعنی وہ اپنی احسن تقویم پر قائم رہیں گے اور بلند سے بلند تر مراتب کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ 
دنیا بالعموم اسفل سافلین ہی کی بالادستی رہی ہے۔ صرف ہمارے رسول پاکؐ نے اپنی شخصیت عظیمہ کے زور سے قرآن پاک کی تعلیم پر مبنی ایسا معاشرہ اور ایسی مملکت قائم فرمائی جس میں آپؐ پر ایمان لانے والے حضرات صحابہؓ کرام کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوئیں اور ایسے انسان بااختیار ہوئے‘ جو احسن تقویم پر قائم رہے اور جن سے انسانیت کو فائدہ پہنچا


عرب دنیا میں انقلاب کی لہر اور پاکستان



لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ـ  
بیسویں صدی کا سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے فوراً بعد سویت یونین کی معیشت کومے میں چلی گئی اور نتیجتاً اس دیو قامت ایٹمی ریاست کا اپنی بے پناہ عسکری صلاحیتوں کے باوجود شیرازہ بکھر گیا۔اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ سردجنگ کے بادل اچانک چھٹ گئے او ر امریکہ پوری دنیا کا خودسر اور مطلق العنان بادشاہ بن گیا۔ وارسا پیکٹ کی Threatیا خطرہ غائب ہوجانے کے باوجود یورپ کو اپنے ساتھ رکھنے اور NATO افواج کو قائم ودائم رکھنے کا جواز ڈھونڈنے کیلئے اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک مشترکہ دشمن یا ٹارگٹ کی اشد ضرورت تھی اس مقصد کے حصول کیلئے پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام موزوں ترین ہدف تھا۔ امریکہ اور دیگر مغری قوتوں کی توپوں کا رخ آہستہ آہستہ مسلمان کی طرف مڑنا شروع ہوگیا۔یہ ہنود اور یہود کیلئے بھی ایک بہت ہی بڑی خو ش کن خبر تھی۔چونکہ یہ اُن کی مسلمان دشمن پالیسی کے عین مطابق تھا اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے 9/11 کا ڈرامہ رچایا گیا۔جس سے ہندو یہودی اور نصاریٰ کا شیطانی اتحاد ثلاثہ مکمل ہوگیا۔جس کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے والی Strategic Triangle کہا جاتا ہے لیکن اللہ کا یہ کرم ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کو پچھلے دس سالوں میں اربوں ڈالرز ڈبونے، ہزاروں سپاہی ہلاک کروانے اور ہر طرف زور زور سے ٹکریں مارنے کے باوجود وہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ متمنی تھے۔ عراق میں اس کے بعد امن قائم نہ ہوسکا جو اسرائیل کی سیکورٹی کیلئے ضروری ہے لبنان میں یہودیوں کو منہ کی کھانا پڑی کشمیری مسلمانوں نے ہندوئوں کی ناک میں دم کردیا۔ اسامہ اور ملا عمر جیسا کوئی بھی اہم لیڈر اتحادیوں کے ہاتھ نہیں لگا۔افغانستان کے بین الاقوامی سلطنتوں کیلئے مختص تاریخی قبرستان میں سویت یونین اور برطانیہ کے ساتھ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے بھی ایک کونے میں اپنے تابوتوں کی تدفین کیلئے اپنی قبروں کی جگہ الاٹ کروالی اس میں شک نہیں کہ مستقبل کا تاریخ دان امریکہ کی10سالہ ناکام افغانستان جنگ کو موجودہ تاریخ کی امریکہ کی سب سے شرمناک شکست کے نام سے منسوب کریگا۔ امریکہ کی عراق اور افغانستان میں پسپائی کے علاوہ ترکی کی نئی سیاسی قیادت نے بھی NATO کے ایک رکن ہونے کے باوجود نہایت جرأت سے امریکہ اور مغرب سے منہ موڑ کر مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرنا شروع کردی ہے۔
حسنی مبارک1971 میں اقتدار میں اس وقت آئے جب مصری صدر انور سادات کو ایک فوجی پریڈ میں قتل کردیا گیا تھا۔ اب تیس سال کی آمرانہ حکومت کے بعد بھی 82سالہ مصری صدر پاکستانی سیاستدانوں کی طرح یہ چاہتا ہے کہ اس کے بیٹے کی تاج پوشی کی جائے۔ صدر مخالف مظاہرے اتنے زور دار اور اچانک تھے کہ امریکہ حیران اور پریشان ہوگیا چونکہ پچھلے تیس سالوں سے مصر بھی امریکہ کی ایک ریاست سے کم نہ تھا۔ چونکہ تابعدار مصر اسرائیل کی سیکورٹی کیلئے ایک بہت بڑی ضمانت تھا فلسطینیوں پر بد ترین مظالم کے باوجود حسنی مبارک کی موجودگی میں اسرائیل کو مصر کے صحرائے سینا کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا۔اگر مصر سے بھی امریکی بُت ہٹا دئیے گئے تو امریکہ کی عرب دنیا سے پسپائی کی ابتدا تصور ہوگی ایران کی جرأت مند قیادت پہلے ہی امریکہ کے نیچے لگنے کو تیار نہیں۔ یہ ساری صورتِ حال بد حال معیشت کا شکار امریکہ کیلئے بہت پریشان کن ہے۔اب امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے اس خطرے کا اظہار بھی کردیا ہے کہ امریکی تسلط کے خلاف عوامی بغاوت کی یہ لہر پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔پاکستان کے کچھ دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی صورت حال عرب ممالک سے مختلف اس لئے ہے کہ یہاں آمریت نہیں جمہوریت ہے ،عدلیہ آزاد ہے اور میڈیا پر کوئی پابندی نہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آمریت اور جَبر تو لازم و ملزوم ہیں اور جبر اور ظلم کے خلاف لوگوں کی نفرت کا لاوا ضرور پکتا رہتا ہے اور جب یہ لاوا اچانک پھٹتا ہے تو سب کچھ بہا کرلے جاتا ہے جیسے ایران کے شہنشاہ کی مضبوط ترین حکومت ختم ہوگئی یا اب حسنی مبارک کی تیس سالہ آمریت کاجنازہ نکلنے والا ہے لیکن اگر برائے نام جمہوریت کے لبادے میں حکمران ٹولے کے ہاتھوں لوگوں کے حقوق سلب ہورہے ہوں، کرپشن، رشوت، کنبہ پروری اور اقربا پروری کا بازار گرم ہو۔ عوام بد ترین معاشی بد حالی کا شکار ہوجائیں ایسی معاشی بد حالی جو جینا محال کردے ہر سودے میں کک بیکس لینے کی باتیں ہوں، بیرونی مداخلت صرف پالیسیوں کی حد تک زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طورپر باقاعدہ ڈرون حملوں کی صورت میں ہورہی ہے ، بجلی اور گیس نایاب ہوجائے۔ بے روزگاری اور بھوک سے تنگ آکر لوگ خودکشیوں پر مجبور ہوجائیں۔دن دیہاڑے ٹارگٹ کلنگ سے بڑے شہروں کے بھرے بازاروں میں بے گناہ لوگوں کی جان لے لی جائے اور مقبولیت کے لواحقین کو داد رسی کی اجازت تک نہ ہو۔ 
بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ قابض ہوں، عدالتی احکامات کو حکومتی کارندے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، میرٹ نام کی کوئی چیز نہ ہو، معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا کام کرنے والی سرکاری کارپوریشنوں میں بغیر کسی خوف کے لوٹ سیل لگی ہوئی ہو۔ کمزور ترین حکمرانی، بد انتظامی اور کرپشن کی وجہ سے قوم کو تین سالوں میں اتنا مقروض کردیاجائے جتنی وہ پچھلے ساٹھ سالوں میں نہ ہوئی ہو اندھیرنگری میں روشنی کی کرن دور دور تک نظر نہ آئے کچھ جماعتیں حکومت میں رہ کر اپوزیشن کریں اور فائدے بھی اٹھائیں اور کچھ اپوزیشن میں رہ کر ملک کیلئے مہلک ترین حکومت کواس لئے نہ گرنے دیں چونکہ وہ اُن کی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں۔ جب گریڈ ایک سے اوپر تک ہر تعیناتی میرٹ کی بجائے سیاسی مصلحتوں کے تحت کی جائے۔جب سرکاری گاڑیوں، جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور مکانوں کی Misuse عروج پر ہو اور جب امیر اور غریب کے طرزِ زندگی اور رہن سہن میں فرق غضب ناک حد تک بڑھ جائے تو پھر کیا لوگ سڑکوں پر نکلنے سے اس لئے اجتناب کرینگے کہ ملک جمہوریت کے جعلی لبادے میں ہے۔آمر کی زیادتیوں کو لوگ برداشت کرسکتے ہیں چونکہ وہ عوامی منتخب نمائندہ نہیں لیکن سیاسی آمر جس کو لوگ قربانیاں دیکر سامنے لائے عوام کے غضب سے کیسے بچ سکتا ہے ذوالفقار بھٹو کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ غریب آدمی کو پیٹ بھر کر کھانا ملناچاہئے اس کو اس سے غرض نہیں کہ ملک میں کونسا نظام نافذ ہے اگر اس کا جینا محال کردیا گیا اور اس کے احتجاج کی بھی کسی نے پرواہ نہ کی تو وہ انقلاب کی طرف بڑھے گا۔اللہ نہ کرے ایسی نوبت پاکستان میں آئے چونکہ پاکستان کے جسم کو لالچی حکمرانوں اور بے رحم لٹیروں نے اتنا نوچا ہے کہ اب اس کے کمزور ہڈیوں کے ڈھانچے کو سہارا دینے کیلئے گوشت کی قلیل مقدار بھی موجود نہیں بہرحال حالات پر اب بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔بشرطیکہ نیک نیت اور مصمم ارادے کے ساتھ ہماری سیاسی قیادت سامنے آئے اور عوام کے سب دکھوںکا مداوا کرے لیکن افسوس ہے کہ …؎

عرب دنیا میں انقلاب کی لہر اور پاکستان



لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ـ  
بیسویں صدی کا سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے فوراً بعد سویت یونین کی معیشت کومے میں چلی گئی اور نتیجتاً اس دیو قامت ایٹمی ریاست کا اپنی بے پناہ عسکری صلاحیتوں کے باوجود شیرازہ بکھر گیا۔اس کا قدرتی نتیجہ یہ نکلا کہ سردجنگ کے بادل اچانک چھٹ گئے او ر امریکہ پوری دنیا کا خودسر اور مطلق العنان بادشاہ بن گیا۔ وارسا پیکٹ کی Threatیا خطرہ غائب ہوجانے کے باوجود یورپ کو اپنے ساتھ رکھنے اور NATO افواج کو قائم ودائم رکھنے کا جواز ڈھونڈنے کیلئے اب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک مشترکہ دشمن یا ٹارگٹ کی اشد ضرورت تھی اس مقصد کے حصول کیلئے پوری دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام موزوں ترین ہدف تھا۔ امریکہ اور دیگر مغری قوتوں کی توپوں کا رخ آہستہ آہستہ مسلمان کی طرف مڑنا شروع ہوگیا۔یہ ہنود اور یہود کیلئے بھی ایک بہت ہی بڑی خو ش کن خبر تھی۔چونکہ یہ اُن کی مسلمان دشمن پالیسی کے عین مطابق تھا اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کیلئے 9/11 کا ڈرامہ رچایا گیا۔جس سے ہندو یہودی اور نصاریٰ کا شیطانی اتحاد ثلاثہ مکمل ہوگیا۔جس کو مسلمانوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے والی Strategic Triangle کہا جاتا ہے لیکن اللہ کا یہ کرم ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کو پچھلے دس سالوں میں اربوں ڈالرز ڈبونے، ہزاروں سپاہی ہلاک کروانے اور ہر طرف زور زور سے ٹکریں مارنے کے باوجود وہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی جس کے وہ متمنی تھے۔ عراق میں اس کے بعد امن قائم نہ ہوسکا جو اسرائیل کی سیکورٹی کیلئے ضروری ہے لبنان میں یہودیوں کو منہ کی کھانا پڑی کشمیری مسلمانوں نے ہندوئوں کی ناک میں دم کردیا۔ اسامہ اور ملا عمر جیسا کوئی بھی اہم لیڈر اتحادیوں کے ہاتھ نہیں لگا۔افغانستان کے بین الاقوامی سلطنتوں کیلئے مختص تاریخی قبرستان میں سویت یونین اور برطانیہ کے ساتھ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے بھی ایک کونے میں اپنے تابوتوں کی تدفین کیلئے اپنی قبروں کی جگہ الاٹ کروالی اس میں شک نہیں کہ مستقبل کا تاریخ دان امریکہ کی10سالہ ناکام افغانستان جنگ کو موجودہ تاریخ کی امریکہ کی سب سے شرمناک شکست کے نام سے منسوب کریگا۔ امریکہ کی عراق اور افغانستان میں پسپائی کے علاوہ ترکی کی نئی سیاسی قیادت نے بھی NATO کے ایک رکن ہونے کے باوجود نہایت جرأت سے امریکہ اور مغرب سے منہ موڑ کر مسلمانوں کے اتحاد کی بات کرنا شروع کردی ہے۔
حسنی مبارک1971 میں اقتدار میں اس وقت آئے جب مصری صدر انور سادات کو ایک فوجی پریڈ میں قتل کردیا گیا تھا۔ اب تیس سال کی آمرانہ حکومت کے بعد بھی 82سالہ مصری صدر پاکستانی سیاستدانوں کی طرح یہ چاہتا ہے کہ اس کے بیٹے کی تاج پوشی کی جائے۔ صدر مخالف مظاہرے اتنے زور دار اور اچانک تھے کہ امریکہ حیران اور پریشان ہوگیا چونکہ پچھلے تیس سالوں سے مصر بھی امریکہ کی ایک ریاست سے کم نہ تھا۔ چونکہ تابعدار مصر اسرائیل کی سیکورٹی کیلئے ایک بہت بڑی ضمانت تھا فلسطینیوں پر بد ترین مظالم کے باوجود حسنی مبارک کی موجودگی میں اسرائیل کو مصر کے صحرائے سینا کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا۔اگر مصر سے بھی امریکی بُت ہٹا دئیے گئے تو امریکہ کی عرب دنیا سے پسپائی کی ابتدا تصور ہوگی ایران کی جرأت مند قیادت پہلے ہی امریکہ کے نیچے لگنے کو تیار نہیں۔ یہ ساری صورتِ حال بد حال معیشت کا شکار امریکہ کیلئے بہت پریشان کن ہے۔اب امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے اس خطرے کا اظہار بھی کردیا ہے کہ امریکی تسلط کے خلاف عوامی بغاوت کی یہ لہر پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔پاکستان کے کچھ دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی صورت حال عرب ممالک سے مختلف اس لئے ہے کہ یہاں آمریت نہیں جمہوریت ہے ،عدلیہ آزاد ہے اور میڈیا پر کوئی پابندی نہیں وہ یہ نہیں سمجھتے کہ آمریت اور جَبر تو لازم و ملزوم ہیں اور جبر اور ظلم کے خلاف لوگوں کی نفرت کا لاوا ضرور پکتا رہتا ہے اور جب یہ لاوا اچانک پھٹتا ہے تو سب کچھ بہا کرلے جاتا ہے جیسے ایران کے شہنشاہ کی مضبوط ترین حکومت ختم ہوگئی یا اب حسنی مبارک کی تیس سالہ آمریت کاجنازہ نکلنے والا ہے لیکن اگر برائے نام جمہوریت کے لبادے میں حکمران ٹولے کے ہاتھوں لوگوں کے حقوق سلب ہورہے ہوں، کرپشن، رشوت، کنبہ پروری اور اقربا پروری کا بازار گرم ہو۔ عوام بد ترین معاشی بد حالی کا شکار ہوجائیں ایسی معاشی بد حالی جو جینا محال کردے ہر سودے میں کک بیکس لینے کی باتیں ہوں، بیرونی مداخلت صرف پالیسیوں کی حد تک زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طورپر باقاعدہ ڈرون حملوں کی صورت میں ہورہی ہے ، بجلی اور گیس نایاب ہوجائے۔ بے روزگاری اور بھوک سے تنگ آکر لوگ خودکشیوں پر مجبور ہوجائیں۔دن دیہاڑے ٹارگٹ کلنگ سے بڑے شہروں کے بھرے بازاروں میں بے گناہ لوگوں کی جان لے لی جائے اور مقبولیت کے لواحقین کو داد رسی کی اجازت تک نہ ہو۔ 
بڑے عہدوں پر چھوٹے لوگ قابض ہوں، عدالتی احکامات کو حکومتی کارندے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں، میرٹ نام کی کوئی چیز نہ ہو، معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کا کام کرنے والی سرکاری کارپوریشنوں میں بغیر کسی خوف کے لوٹ سیل لگی ہوئی ہو۔ کمزور ترین حکمرانی، بد انتظامی اور کرپشن کی وجہ سے قوم کو تین سالوں میں اتنا مقروض کردیاجائے جتنی وہ پچھلے ساٹھ سالوں میں نہ ہوئی ہو اندھیرنگری میں روشنی کی کرن دور دور تک نظر نہ آئے کچھ جماعتیں حکومت میں رہ کر اپوزیشن کریں اور فائدے بھی اٹھائیں اور کچھ اپوزیشن میں رہ کر ملک کیلئے مہلک ترین حکومت کواس لئے نہ گرنے دیں چونکہ وہ اُن کی سیاسی جماعت کے مفاد میں نہیں۔ جب گریڈ ایک سے اوپر تک ہر تعیناتی میرٹ کی بجائے سیاسی مصلحتوں کے تحت کی جائے۔جب سرکاری گاڑیوں، جہازوں، ہیلی کاپٹروں اور مکانوں کی Misuse عروج پر ہو اور جب امیر اور غریب کے طرزِ زندگی اور رہن سہن میں فرق غضب ناک حد تک بڑھ جائے تو پھر کیا لوگ سڑکوں پر نکلنے سے اس لئے اجتناب کرینگے کہ ملک جمہوریت کے جعلی لبادے میں ہے۔آمر کی زیادتیوں کو لوگ برداشت کرسکتے ہیں چونکہ وہ عوامی منتخب نمائندہ نہیں لیکن سیاسی آمر جس کو لوگ قربانیاں دیکر سامنے لائے عوام کے غضب سے کیسے بچ سکتا ہے ذوالفقار بھٹو کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ غریب آدمی کو پیٹ بھر کر کھانا ملناچاہئے اس کو اس سے غرض نہیں کہ ملک میں کونسا نظام نافذ ہے اگر اس کا جینا محال کردیا گیا اور اس کے احتجاج کی بھی کسی نے پرواہ نہ کی تو وہ انقلاب کی طرف بڑھے گا۔اللہ نہ کرے ایسی نوبت پاکستان میں آئے چونکہ پاکستان کے جسم کو لالچی حکمرانوں اور بے رحم لٹیروں نے اتنا نوچا ہے کہ اب اس کے کمزور ہڈیوں کے ڈھانچے کو سہارا دینے کیلئے گوشت کی قلیل مقدار بھی موجود نہیں بہرحال حالات پر اب بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔بشرطیکہ نیک نیت اور مصمم ارادے کے ساتھ ہماری سیاسی قیادت سامنے آئے اور عوام کے سب دکھوںکا مداوا کرے لیکن افسوس ہے کہ …؎
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا....... ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوانہ تھyہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا....... ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوانہ 

پی سی او ججوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ... اصلاح کے خواہشمند تمام طبقات عدلیہ کی ڈھال بن جائیں

سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس ایم اے شاہد صدیقی کی سربراہی میں قائم عدالت عظمٰی کے چار رکنی فل بینچ نے سپریم کورٹ کے 2؍ نومبر 2007ء کے فیصلہ کی خلاف ورزی کرکے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے اعلیٰ عدلیہ کے 9 ججوں کی توہین عدالت کے نوٹسوں کیخلاف درخواستیں مسترد کرتے ہوئے انہیں 21؍ فروری کو اظہارِ وجوہ کے حتمی نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ کیوں نہ ان کیخلاف توہینِ عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے‘ فاضل عدالت نے پی سی او نافذ کرنے اور اس پر عملدرآمد کرانے کی بنیاد پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف‘ سابق وزیراعظم شوکت عزیز اور اس وقت کے کور کمانڈروں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کا معاملہ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری پر چھوڑ دیا اور سفارش کی کہ ان مدعا علیہان کے معاملہ کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کے معاملہ سے الگ رکھا جائے۔ ان مدعا علیہان کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا لاہور ہائیکورٹ کے دو پی سی او ججز شبّر رضا رضوی اور حسنات احمد خان کے وکیل ڈاکٹر باسط کی جانب سے کی گئی تھی۔ 
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 2؍ نومبر 2007ء کی شب بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن کی ایک درخواست پر متفقہ احکام جاری کئے تھے کہ عدلیہ کی آزادی کیخلاف کوئی ماورائے آئین اقدام نہ کیا جائے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کے جج پی سی او نافذ ہونے کی صورت میں اسکے تحت نیا حلف اٹھائیں۔ 3؍ نومبر 2007ء کو پی سی او کے تحت معزول ہونیوالی عدلیہ کی بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کی فل کورٹ نے 3؍ نومبر کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرکے انہیں بطور جج کام کرنے سے روک دیا تھا۔ ان میں سے دو ججوں نے فاضل عدالت عظمٰی سے غیرمشروط معافی مانگ لی‘ جبکہ باقیماندہ پی سی او ججوں نے اپنے خلاف توہین عدالت کے الزام کا دفاع کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلہ میں عدالتِ عظمٰی میں درخواستیں دائر کیں جن میں ان کیخلاف جاری توہین عدالت کے نوٹس ختم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران دو پی سی او ججوں کی جانب سے ڈاکٹر باسط نے ایک متفرق درخواست دائر کی کہ جنہوں نے 3؍ نومبر 2007ء کو پی سی او جاری کیا اور اسکے نفاذ میں مدد دی‘ ان کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ 
آئین کی دفعہ 189, 190 کے تحت تمام ریاستی ادارے اور انتظامی مشینری بشمول صدر‘ وزیراعظم‘ وزرائ‘ مسلح افواج اور وفاقی و صوبائی محکمے کسی بھی عدالتی فیصلہ کو لاگو کرنے اور اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس بنیاد پر سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے 2؍ نومبر 2007ء کے فیصلہ کی تعمیل کرنا بھی ریاستی اور حکومتی اداروں کی آئینی ذمہ داری تھی تاہم اس وقت کے صدر جنرل مشرف نے جو پہلے بھی اپنی مطلق العنانہ سوچ اور جرنیلی عزائم کے تحت چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چودھری کو معطل کرکے ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھجوا چکے تھے‘ جسے کالعدم قرار دیکر سپریم کورٹ کے وسیع تر بینچ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کر دیا تھا‘ دوبارہ عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارا اور سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے 2؍ نومبر 2007ء کے فیصلہ کے باوجود 3؍ نومبر کو ملک میں ایمرجنسی اور پی سی او نافذ کر دیا اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھائے‘ انہیں فارغ کرکے گھروں پر نظربند کر دیا گیا۔ 
فوجی جرنیلوں کے ماورائے آئین اقدامات کو اگرچہ ماضی میں بھی عدلیہ کی جانب سے نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیکر پی سی او کے تحت حلف اٹھایا جاتا رہا ہے‘ تاہم چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی جانب سے جرنیلی آمر اور انکے باوردی ساتھیوں کے سامنے ڈٹ جانے کے اقدام نے عدلیہ کی آزادی کی ایک واضح سمت کا تعین کر دیا جبکہ باوقار عدلیہ کی جانب سے ’’سٹیٹس کو‘‘ توڑنے کے جرأت مندانہ اقدام نے وکلاء برادری اور سوسائٹی کے دیگر طبقات میں بھی مہذب سول معاشرت کیلئے ایک نیا عزم اور حوصلہ پیدا کیا جو بالآخر موجودہ سلطانی ٔ جمہور میں معزول ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کی کامیابی پر منتج ہوا اور حکومت سول سوسائٹی کی اس تحریک کے آگے گھٹنے ٹیکنے اور پی سی او کے تحت معزول ہونیوالے ججوں کو بحال کرنے پر مجبور ہوئی۔ 
چونکہ ماضی کا سارا گند صاف کرکے ہی قانون و انصاف کی حکمرانی کے تحت سسٹم کی اصلاح ممکن تھی‘ چنانچہ اس کا بیڑہ بھی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور انکے ساتھی فاضل ججوں نے اٹھایا اور اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا‘ وہ سسٹم کی اصلاح سے متعلق اپنے عزم پر اب تک کاربند ہیں۔ اس تناظر میں عدالت عظمٰی کے گزشتہ روز کے احکام بھی سسٹم کی اصلاح کیلئے ممدومعاون ثابت ہونگے اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو گی تو اس سے آئین و قانون کی عملداری کا تاثر مزید مستحکم ہو گا اور آئندہ کیلئے عدلیہ کی جانب سے نظریہ ضرورت کے تحت کسی طالع آزماء جرنیل کی قبولیت کی گنجائش نہیں نکل سکے گی۔ آئین و قانون کی عملداری کے معاملہ میں جب عدلیہ خود کو مثال بنائے گی تو اس سے ہماری سیاست اور معاشرت میں بھی تطہیر کا عمل شروع ہو جائیگا اور پھر سسٹم کے استحکام کی فضا بھی مستحکم ہو جائیگی جس کی خاطر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف موجودہ کرپٹ حکمرانوں کو سہارا دینے کی مجبوری میں بندھے نظر آتے ہیں۔ 
یہ اچھی بات ہے کہ خود مدعا علیہ ججوں کی جانب سے عدالت عظمٰی کے فیصلہ کے برعکس پی سی او کے نفاذ اور اسکی قبولیت پر سابق صدر‘ وزیراعظم اور اس وقت کے کور کمانڈروں کیخلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لانے کی استدعا کی گئی۔ سپریم کورٹ کے چار رکنی بینچ نے یقیناً اسے مثالی کیس بنانے کی خاطر ہی متذکرہ تمام مدعا علیہان کیخلاف کارروائی کا معاملہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی صوابدید پر چھوڑا ہے۔ یہ ساری شخصیات انصاف کے کٹہرے میں آئینگی تو اس سے عدلیہ کی آزادی کا تصور بھی پختہ ہو گا‘ انصاف کا بھی بول بالا ہو گا اور حکومتی و ریاستی اداروں کی تمام متعلقہ شخصیات کو بھی آئندہ کیلئے کان ہو جائینگے کہ آئین کی دفعہ 189, 190 صرف آئین کی کتاب میں محفوظ رکھنے کیلئے نہیں بلکہ انہیں روبہ عمل لانا انکے قانونی آئینی فرائض میں شامل ہے۔ 
اگرچہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر بیگم عاصمہ جہانگیر نے پی سی او ججز کے کیس میں عدالتِ عظمٰی کے گزشتہ روز کے احکام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے‘ جن کے بقول ان احکام میں جنرل (ر) مشرف‘ شوکت عزیز اور دوسرے مدعا علیہان کو توہین عدالت کی کارروائی سے بچانے کی گنجائش موجود ہے تاہم یہ عاصمہ جہانگیر کی اپنی سوچ ہے اور متذکرہ مدعا علیہان کے بارے میں حتمی فیصلہ تو چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ہی کرنا ہے۔ اگر وہ اپنے عدلیہ کے ادارے کو ماضی کے گند سے پاک کرنے کے عزم پر کاربند ہیں تو دیگر حکومتی ریاستی اداروں میں بھی قانون اور آئین کی عملداری ہی ان کا مطمع نظر ہے۔ اس سلسلہ میں ان تمام طبقات کو عدلیہ کی ڈھال بننا چاہیے‘ جو اس معاشرے اور سسٹم کو کرپشن کلچر اور ہر قسم کی بے ضابطگیوں سے پاک کرنے اور سسٹم کو ٹریک پر چڑھانے کی دردمندی رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں جو شمع جلائی ہے‘ اسکی لَو مدھم نہیں ہونے دینی چاہیے ورنہ ماورائے آئین غیرجمہوری اقدامات کا خناس رکھنے والے طالع آزماء سسٹم کا کوئی بھی کمزور پہلو ڈھونڈ کر پھر اودھم مچا سکتے ہیں۔ انہیں قانون و آئین کی حکمرانی سے ہی نکیل ڈالی جا سکتی ہے۔ 
مصر میں ملین ملین مارچ ہمارے حکمرانوں کیلئے بھی لمحہ فکریہ 
مصر میں صدر حسنی مبارک کیخلاف ملین مارچ کی کال پر 30 لاکھ کے قریب افراد نے قاہرہ میں زبردست احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ حسنی مبارک فوری طور پر اقتدار چھوڑ دیں۔ حسنی مبارک نے فوری طور پر مستعفی ہونے سے انکار کیا ہے تاہم کہا ہے کہ وہ ستمبر میں ہونیوالے انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اوباما کے ایلچی نے بھی حسنی مبارک کو یہی پیغام پہنچایا ہے کہ وہ ستمبر 2011ء کے انتخابات میں حصہ نہ لیں۔ 
اسلامی ممالک میں تبدیلی کی لہر تیونس سے شروع ہوکر مصر، یمن اور اردن تک پہنچ چکی ہے اور بعید نہیں کہ یہ پاکستان تک بھی چلی آئے کیونکہ یہاں بھی مذکورہ ممالک کی طرح حالات بگڑے ہوئے ہیں۔ کرپشن، مہنگائی اور بے روزگاری سے لوگ پریشان ہیں۔ امریکہ کی خوشامد اور چاپلوسی بلکہ غلامی میں ہمارے حکمران دیگر اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ مشرف کی فوجی آمریت سے پاکستانیوں کی جان چھوٹی تو سیاسی آمریت مسلط ہو گئی۔
تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کے باوجود انکے نرخ بڑھا دیئے جاتے ہیں جس محکمے، شعبے اور ادارے کو دیکھ لیجئے کرپشن اور بے انتہاء کرپشن نظر آتی ہے۔ بدنظمی ایسی کہ ریلوے، سٹیل مل اور پی آئی اے دیوالیہ ہونے کو ہیں۔
ریلوے فریٹ آپریشن تیل کی کمی کے باعث بند کر دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 55 ارب کے سودے میں سے 40 ارب کا گھپلا کیا گیا۔ اوپر سے ڈرون حملوں سے عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں افراد مارے گئے ہیں۔ ان حملوں کے ردعمل میں پیدا ہونیوالے خودکش بمباروں نے پورے ملک کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ حکمران ہیں کہ ڈرون پر رسمی احتجاج بھی نہیں کرتے۔ 
ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ عالمی تناظر کو پیش نظر رکھیں۔ خدا نہ کرے کہ پاکستان میں تیونس اور مصر جیسے حالات پیدا ہوں۔ تاہم اگر حکومت نے عاقبت اندیشی سے کام نہ لیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا۔ اس لئے عوامی مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے گو حکومت کے اسے امریکہ کے حوالے نہ کرنے کے بیانات مثبت ہیں مگر حکومت کے کچھ ذمہ دار لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈیوس کو سفارتی استثنا ثابت ہو گیا تو اسے رہا کرنا پڑیگا‘ ایسے بیانات سے لوگوں کے اندر کے شکوک شبہات کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔ سینٹ کے ارکان نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ ڈیوس کو پاکستانی قوانین کے مطابق سزا دی جائے۔ اس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے ریمنڈ کو بیرون ممالک بھجوانے پر پابندی احسن اقدام ہے۔ بہرحال حکومت کو قومی ملکی اور عوامی مفادات کے پیش نظر رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں جو خود اسکے بھی مفاد میں ہے۔ 
شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکس کی چھوٹ اچھا فیصلہ ہے
وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں میں چھوٹ کی منظوری بھی دے رہی ہے۔
شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں کی چھوٹ کا فیصلہ اچھا ہے۔ اس سے انرجی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی‘ حکومت نے جہاں شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی پر ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے‘ وہیں اسکے پاور پراجیکٹس کی تنصیب کیلئے بھی معاونت کرنی چاہیے۔ ہمارے ہاں اوسطاً چودہ پندرہ گھنٹے سورج کی روشنی موجود رہتی ہے‘ یوں شمسی توانائی کا وسیع تر حصول ممکن ہے۔ آج چونکہ زراعت اور صنعت و حرفت سمیت ہر چھوٹے بڑے کاروبار کیلئے انرجی کی اہمیت بڑھ چکی ہے‘ اس لئے توانائی کے کسی ایک ہی ذریعے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان میں کوئلہ کے بے شمار ذخائر موجود ہیں‘ ایک سٹڈی کے مطابق کوئلہ سے 8 صدیوں تک مسلسل 100 میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس پراسیس سے ڈیزل اور پانی بھی وافر مقدار میں حاصل ہو گا۔ پانی کے ذرائع کو استعمال کرنے کیلئے ڈیم بنائے جائیں‘ بالخصوص کالا باغ ڈیم فی الفور تعمیر کیا جائے۔ قومی سطح پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیکر اس کی تعمیر میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں تاکہ ہمارے ملک میں توانائی کا جو بحران پیدا ہوا ہے اس سے 
چھٹکارا پایا جا سکےتھے

hasbe haal - 3rd feb 2011



Islamabad Tonight 3rd February 2011





TOPIC- TURMOIL IN MIDDLE EAST & PAKISTAN
GUESTS- FAYSAL RAZA ABIDI, ABDUL RASHEED GODAL, PROFESSOR IBRAHIM
FAYSAL RAZA ABIDI OF PPPP said that soon the size of the cabinet will be deflated. He said that government is considering dissolving current cabinet and have a very small cabinet in the near future. Comparing the troublesome situation of Middle East with Pakistan he said that people of in the Arab world are suppressed where as in Pakistan people have the freedom of speech. He said that because of the freedom of speech it seems difficult that people of Pakistan will come out on the streets against government like Middle East. Answering the criticism against politicians he said that corruption is in every department of life not just the politicians. He said that it is so funny that the case against PCO judges will be decided by those who are also PCO judges. He said that media only conduct shows to criticize government. He said that he filed a law suite against anchor Javed Choudhery and the court is intentionally not giving him the date of hearing. He criticized that CJ Iftikhar Ahmed Choudhery that he is unable to control corruption at the level of lower courts. He accused that media and judiciary cover each other back. He said that if democratic process continued things will be much better in the future for Pakistan.
RASHEED GODAL OF MQM said that Pakistan needs to reduce the size of the cabinet. He said that countries like China and India with population over one billion people each have smaller size cabinet than Pakistan. He said numerous bureaucrats attached with ministers put extra burden on the economy. He said that beside other measures shedding the size of cabinet is another way to reduce budget deficit. He said that ninety percent of Pakistani people are deprived with their basic rights. He said that Pakistan is heading towards a revolution. He said that people of Pakistan will respond to the call of revolution by Altaf Hussain. He said that only MQM can bring revolutionary change in the country. He said that MQM is the only party which chooses candidates from middle class community to run for national and provincial assemblies. He said that no member of parliament should have dual nationality and properties abroad. He said that if we could not bring the change with the power of vote then Pakistan will be destined to revolution in the near future. He said that it is time to get rid of lineal political system otherwise no body will be able to stop people to come out on the streets in revolutionary protests.
PROFESSOR IBRAHIM OF JI said that according to 18th amendment the size of the cabinet will be reduced after the elections for the next term. He said that there is similarity of problems between Pakistan and Arab world. He said that there is possibility that people can go on the streets for revolution in Pakistan. Answering the criticism of Faysal Raza Abidi against JI to have association with a dictator Gen Zia ul Haq he said that every democratic government uses the crutches of military generals to keep their government running in Pakistan. He said that Zulfiqar Ali Bhutto was the first politician germinated by a military general. He said that change with the power of vote will be better for Pakistan. He said that if change comes with power of bullet it will be a real disaster for Pakista


                                           


No comments:

Post a Comment