انتخابات ختم ہوئے تو ہمارے مولانا صاحب نے ہمارے دونوں منتخب ارکان اسمبلی کو دعوت دی ابھی حکومت سازی کاکام شروع نہیں ہوا تھا مگر اندازہ تھا کہ صوبے میں مسلم لیگ اور اے این پی کی مخلوط حکومت بننے کا امکان ہے ارکان اسمبلی کا تعلق مسلم لیگ سے تھا ،اس چھوٹی سی میٹنگ میں ہمیں شرکت کی دعوت دی گئی یوں تو ہم سیاسی اجتماعات سے دور ہی رہے ہیں مگر مولانا صاحب کا حکم تھا اس لیے شرکت لازمی تھی ہم نے کہا چلو ایک خاموش تماشائی کا اضافہ ہو جائے تو کوئی ہرج بھی نہیں ہے ہم بھی اس اجتماع میں شریک ہوگئے ارکان اسمبلی نے اپنے مینو فیسٹو پر عمل کرنے کی پوری پوری یقین دھانیاں کروائیں حاضرین میں بھی تجاویز دینے والے وافر تعداد میں موجود تھے ہمارے ایک پروفیسر صاحب بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ حکومت کی بہتری کیلئے بہترین نسخہ یہ ہے کہ ہر کام میرٹ پر کیا جائے محکموں کو ان کے حال پر چھوڑا جائے اور کوئی رکن اسمبلی اس میں مداخلت نہ کرے کسی آسامی کیلئے کوئی بھی ممبر صوبائی اسمبلی کی سفارش نہ کرے اور نہ کسی تقرری و تبادلے میں ٹانگ اڑائے چونکہ اس سے قبل جتنی بھی خرابیاں حکومتی سسٹم میں آئی ہیں وہ سب سفارش کا ہی پیش خیمہ ہیں اور یہی سفارش کا سسٹم رشوت کو بھی جنم دیتا ہے ۔
چونکہ ممبران اور وزراء کے گرد ایک حلقہ چاپلوسان اکھٹا ہو جاتا ہے جو وزیر یا ممبر کے دستخط کیلئے رشوت کا بازار گرم کردیتاہے وزیر صاحب یا ممبر بھلے ایک اچھے انسان ہوں مگر عوام میں وہ ایک رشوت خور کے لقب سے مشہور ہو جاتے ہیں اجتماع ختم ہوا تو ہم چند مخصوص شرکاء چائے کیلئے دوسرے کمرے میں گئے تو پروفیسر صاحب نے چند درخواستیں جیب سے نکالیں اور ایک ممبر صاحب کے آگے رکھ دیں کہ ان پر سفارش لکھ دیں ایک ممبر صاحب نے بڑی خوشی سے اپنی سفارش لکھی اور دستخط ثبت کردئیے دوسرے ممبر نے کہاکہ بھئی ہم تو ابھی ابھی منتخب ہوئے ہیں ہمیں کون پہچانے گا اس لیے دستخط کرنے کا کیا فائدہ اس کے بعد یوں ہوا کہ پہلے حضرت کو وزارت اعلیٰ مل گئی اور دوسرے صاحب وزیر قانون ہوگئے وزیر اعلیٰ کی کی گئی سفارشات سے بھلا کون انکار کرسکتا تھا اور رہے وزیر قانون صاحب تو جب بھی کوئی ان سے سفارش کروانے کی کوشش کرتا وہ ہمیشہ کہتے کہ بھائی اس درخواست کا وزارت قانون سے کیا تعلق اور بہتر ہے کہ لوگ میرٹ پر آئیں اور ملک ترقی کرے مگر ان کی سوچ ہمارے سروں کے اوپر سے گزرتی رہی دیگر ممبران کرام کی سفارشیں باقاعدہ گریڈ ایک سے سترہ تک چلتی رہیں اگلا الیکشن آیا تو وزیر اعلیٰ صاحب پھر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے اور وزیر قانون صاحب کو کسی نے پوچھا تک نہیں۔
یہ اس دور کی بات ہے کہ جب سفارشیں بہت زیادہ کام کرتی تھیں گو وزراء کے چمچوں نے خوب خوب پیسے بنائے اور بدنام وزراء ہوئے مگر اسے کون پوچھتا ہے ہمارے ممبران اسمبلی کا کام اتنا ہی ہے کہ وہ اساتذہ کی تقرریاں تبادلے کرتے رہیں کیونکہ اس سے اوپر کا نہ ان کا ذہن ہے اور نہ ان سے کوئی لیڈر بڑا کام لیتا ہے پھر ایک اور دور جواب تک جاری ہے جس میں وزراء کرام اپنے کاروبار کو بیرون ملک تک پھیلا رہے ہیں یہ مرض اب بہت عام ہوگیاہے کچھ حضرات نے بوجہ مجبوری اپنے کاروبار ملک سے باہر شفٹ کیے جس کی وجہ سے ہماری انتقامی سیاست بنی ایک پارٹی کی گورنمنٹ آئی تو اس نے دوسری پارٹی کے کاروبار کو تباہ کرنے کی پوری پوری کوشش کی جس کے سبب اس پارٹی کے کاروباری حضرات ایسے ملک کی تلاش میں نکل پڑے جہاں ان کا کاروبار محفوظ ہو یا کچھ پارٹیوں کی قیادت کو دیس نکالا دے دیاگیا جس کے سبب ان لوگوں نے اپنا کاروبار بھی بیرونی ممالک میں شفٹ کردیا یوں ایک بھیڑ چال چل پڑی اور آج آصف زرداری ہو یا نواز شریف ،چوہدری برادران ہوں یا اسفند یار ولی سب نے اپنے اپنے کاروبار بیرونی ممالک جما لیے ہیں اب کبھی کبھی ہمارے لیڈران کرام پاکستان کی جانب بھی پلٹ کر دیکھ لیتے ہیں عوام کس حال میں ہیں کسی کو پرواہ نہیں چونکہ عوام کی ترقی سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے اب یہ لوگ اسی طرح عید شب قدر پر دکھائی دیتے ہیں جس طرح ہمارے بڑے کراچی سے عید شب قدر پر اپنے بچوں سے ملنے آیا کرتے تھے اس سارے عمل میں سب سے گنہگار وہ ہیں جو سب کچھ جان کر پھر انتخابات کے وقت ان ہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں اور پھر دوسرے انتخابات تک اپنے لیڈروں کا منہ دیکھنے کو ترستے رہتے ہیں اور اپنے مسائل کے حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں۔
اب تو حال یہ ہے کہ اگر کوئی لیڈر اقتدار میں ہے تو بھی ہر دوسرے دن دوبئی کے دورے پر جارہاہے اور اگر اپوزیشن میں ہے تو بھی اسے سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ کا دورہ کرنا پڑتاہے یہ ملک اتنے اہم کیوں ہوگئے ہیں ہمارے وزراء صاحبان تو خیر سے بیرون ملک زیر تعلیم اپنے بچوں کو ملنے جاتے ہی رہتے ہیں اس طرح اور بہت سے حکومتی افسران نے بھی خود کو دوبئی اور سوئٹزر لینڈ سے منسلک کررکھاہے جہاں ان کو کبھی اپنے اور کبھی شریک حیات اور کبھی بچوں کے علاج کیلئے قومی خزانے کے بل بوتے پر دورے کرنے پڑتے ہیں ان لوگوں کو بھی اپنے کاروبار اور بینک بیلنس چیک کرنے کو جانا پڑتاہے رہا سوال ملکی ترقی کا تو اس کی کس کو پرواہ ہے ملک چونکہ خداداد ہے اس لیے اسکے عوام کو بھی اسی کے حوالے کردیاگیاہے وہی ان کی حفاظت کریں۔
No comments:
Post a Comment