Sunday, February 20, 2011

جاندار قوموں کا مردہ قوموں سے کیا مقابلہ؟



ـ 2 گھنٹے 16 منٹ پہلے شائع کی گئی
بیرسٹر ظہور بٹ (لندن) ........
میرا پاکستان بھی ایک عجیب ملک ہے اسکے اندر رہنے والے لوگ کیسے عجیب ہیں اور ان سے بھی عجیب اس ملک کے نام نہاد دانشور ہیں جو لوگوں کے اصل مسائل کو چھوڑ کر اُلٹی پُلٹی ناکارہ اور فضول بحثوں میں عوام کو الجھا رہے ہیں کوئی ریمنڈ ڈیوس پر پاکستان کے قوانین کیمطابق دوہرے قتل کا مقدمہ چلانا چاہتا ہے اور جانتے ہوئے بھی نہیں ماننا چاہتا کہ اگر امریکہ کہتاہے کہ ریمنڈڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے تو بات ختم ہو جاتی ہے اور نہ بھی ہو تو ہماری مفلوج حکومت امریکہ کا حکم ماننے سے کیسے انکار کر سکتی ہے؟ کوئی 55 سالوں سے ہمارے سیاستدان اور طالع آزما فوجی جرنیل بھیک کا کاسہ ہاتھوں میں اٹھائے واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر کھڑے ہاتھ جوڑے ’’دے جا سخیا راہ خدا‘‘ کی صدائیں دے دیکر ملک چلا رہے ہیں اور اس تمام عرصے میں پاکستان کے عوام کا مستقبل بھی امریکہ کے حوالے کر چکے ہیں اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ ہماری کوئی بھی حکومت امریکی ڈالروں کی آکسیجن کے بغیر ایک منٹ کیلئے بھی زندہ نہیں رہ سکتی تو پھر ریمنڈڈیوس کا واہ ویلا کرنے کا کیا فائدہ؟ ہم کیوں اپنے عوام کے جذبات کو ابھار رہے ہیں اور کیوں انہیں جھوٹی تسلیاں دے رہے ہیں کیونکہ ہونا تو وہی ہے جو امریکہ چاہے گا، جو صدر بارک اوباما چاہے گا اور جو اب سابق صدارتی امیدوار جان کیری کہے گا؟ 
ویسے بھی 1961کی ویانا کنونشن کے آرٹیکل 29 کے مطابق سفارتکاروں کو کسی بھی قسم کے سول یا فوجداری جرائم کے الزامات میں گرفتار نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سفارتکاروں کو بھیجنے والا ملک اگر چاہے تو آرٹیکل 32 کے مطابق جرم کرنیوالے سفارتکار کے استثنیٰ کے حقوق ختم کر سکتاہے تاکہ جس ملک میں جرم ہوا ہے اس ملک کے قوانین کیمطابق اس سفارتکار پر مقدمہ چلایا جا سکے خاص طور پر اس صورت میں جب جرم انتہائی سنگین ہو اور اسکا کوئی بھی تعلق اسکے معمول کے فرائض سے نہ ہو لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکہ کمزور ملکوں کا بازو مروڑ کر اپنے مجرم سفارتکار کو چھڑا کر لے جاتا ہے اور سنگین جرم کی صورت میں اس پر اپنے ملک میں مقدمہ چلاتا ہے اور اگر جرم ثابت ہوجائے تو اسے جیل کی سزا بھی ہو جاتی ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں ریمنڈڈیوس کے معاملے میں ہمارا دفتر خارجہ، امریکی دفتر خارجہ اور امریکی سفارت خانہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں کر سکے کہ آیا ریمنڈڈیوس کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے بھی یا نہیں یہ کام ہماری عدالتوں کا نہیں وہ تو صرف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 کے مطابق قانونی کارروائی ہی کر سکتی ہیں۔
ایک اور فضول بحث جس میں ہم بیکار الجھے ہوئے ہیں وہ ہے کہ پاکستانی افواج کے طالع آزما جرنیلوں کا سیاست میں کوئی رول ہونا چاہیے یا نہیں پاکستان کا آئین تو اس کا جواب نفی میں دیتا ہے مگر جب فوج اقتدار سنبھالتی ہے تو وہ آئین کی پرواہ نہیں کیا کرتی جرنل ضیا نے آئین کو ردی کا ایک ٹکڑا کہہ کر جب اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا تو ہم نے یا ہماری عدلیہ نے اس کا کیا بگاڑ لیا تھا؟
پاکستان کے یہ طالع آزما جرنیل تو 1956 سے ہی علانیہ پاکستان کی سیاست میں ملوث رہے ہیں اور اسکی بنیادی وجہ بھی ہمارے خود غرض اور لالچی سیاستدان ہی رہے ہیں فوج صرف ان ملکوں کی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتی یا نہیں کر سکتی جن ملکوں میں میٖڈیا آزاد ہو، جن کے تمام ادارے اپنی اپنی جگہ فعال ہوں اور اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے ہوں، جہاں عدلیہ آزاد ہو، جہاں جمہوری کلچر ترقی کرکے مستحکم ہو چکا ہو، جہاں سیاسی جماعتیں بنیادی سطح سے لیکر اوپر تک منظم ہوں، جہاں سیاسی جماعتوں کی پالیسی سازی میں ان جماعتوں کے کارکنوں اور ممبروں کی رائے کو بھی اہمیت دی جاتی ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جہاں حکمران عوام کی دولت لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنے کی بجائے اپنے ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کو اپنا ایمان بنائے ہوئے ہوں۔ اسکے برعکس اگر پاکستان کی طرح کسی ملک میں کوئی جمہوری کلچر ہی نہ ہو، سیاسی جماعتیں کسی فردواحد کی مٹھی میں بند ہوں، اس جماعت کے کسی بھی کارکن یا چھوٹے لیڈر کو جماعت کے صدر کیخلاف منہ کھولنے کی جرأت نہ ہو، اس جماعت کے حکمران دونوں ہاتھوں سے ملک کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں لگے ہوئے ہوں اور انکی دیکھا دیکھی اس حکومت کے وزراء کی فوج ظفر موج بھی یہی وطیرہ اپنا لے تو اس ملک کے تمام سرکاری ملازمین بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا شروع کر دیا کرتے ہیں۔
حضرت عمرؓ سے ایک روائت ہے کہ ان کے خلیفہ بننے کے کچھ عرصہ بعد یمن کے ایک سردار ان سے ملنے مدینہ آئے تو نذرانے کے طور پر انہیں انڈوں کی ایک ٹوکری پیش کی لیکن حضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ اگر حاکم انڈوں کی ٹوکری کا تحفہ قبول کر لے گا تو اسکے گورنر اپنے علاقوں کے تمام مرغی خانوں کا سفایا کردینگے آج جس بیدردی سے پاکستان کو لوٹا جارہا ہے، وزیر اعظم سے لیکر نیچے تک آوے کا آوا ہی الٹا ہوا ہے، رولز رائس گاڑیاں خریدی جارہی ہیں، وزراء تو کیا انکے بیٹے بھی اربوں روپوں کے گھپلوں کے الزامات میں مطلوب ہیں تو کیا ہمارے جرنیلوں کے منہ میں پانی نہیں آئیگا؟ اگر کسی ٹیم کی کارکردگی ناکارہ ہو جائے تو سب سے پہلے اس ٹیم کے کپتان کے گریبان پہ ہاتھ ڈالا جاتا ہے مگر ہمارے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کیلئے مرکزی کابینہ توڑ کر نئی کابینہ تشکیل دے دی جاتی ہے تو نہ صرف وزیراعظم وہی رہتا ہے بلکہ کرپشن میں بد ترین شہرت رکھنے والے وزراء بھی اپنی اپنی کرسیوں پر ویسے کے ویسے ڈٹے رہتے ہیں ان حالات میں ہمارے عوام ایک مدت سے یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ حکمرانی کیلئے ہمارے سیاستدان اور طالع آزما جرنیل تھوڑے تھوڑے عرصے بعد اپنی اپنی باریاں لیتے رہتے ہیں کوئی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں تو کوئی اس بہتی گنگا میں ڈبکیاں لیتے ہیں۔
ہمارے ملک کی تصویر کا تیسرا رخ بھوک بیماری اور بیکاری سے پٹے ہوئے ہمارے عوام تو ہیں مگر یہ نہ ہونے کے برابر ہیں مہنگائی اور بیکاری سے تنگ آکر آئے دن یہ اپنے خاندان سمیت خود کشیاں تو کرتے رہتے ہیں مگر انہیں خود کشیوں پر مجبور کرنیوالے اپنے حاکموں کے گلے پکڑنے کی آج تک جرأت نہیں ہوئی ہمارے کئی دانشور تیونس اور مصر کے عوام کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ جاندار قوموں سے بھلا مردہ قوموں کا کیا مقابلہ؟

No comments:

Post a Comment