امریکی خلائی ادارے ناسا کا ’میسنجر‘ نامی خلائی جہاز سیارہ عطارد کے گرد مدار میں کامیابی سے داخل ہوگیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی خلائی جہاز سورج کے نزدیک ترین واقع اس سیارے کے گرد مدار میں پہنچا ہے۔
خلائی جہاز جمعہ کی صبح عطارد کے اتنے قریب پہنچا کہ انجن بند کیے جانے پر سیارے کی کششِ ثقل نے اسے اپنے مدار میں کھینچ لیا۔
ناسا کو امید ہے کہ یہ روبوٹک جہاز بارہ گھنٹے تک سیارے کے مدار میں رہے گا۔ ’میسنجر‘ کے چیف انجینیئر ایرک فنیگن کا کہنا ہے کہ ’ہم اس کے اتنا قریب ہیں جتنا پہنچا جا سکتا ہے۔ ابھی بہت کام باقی ہے لیکن ہم وہاں پہنچ تو گئے ہیں‘۔
عطارد دو انتہاؤں کی دنیا ہے اور جہاں سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی سطح کا درجہ حرارت چھ سو سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے وہیں اس کے قطبین میں موجود ایسےگڑھوں میں آبی برف بھی موجود ہے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں۔
واشنگٹن کے کارنیگی انسٹیٹیوشن سے تعلق رکھنے والے اس مہم کے مرکزی محقق شان سولومن کو امید ہے کہ آنے والے مہینوں میں عطارد کے بارے میں نئے انکشافات سامنے آئیں گے۔
اس وقت یہ خلائی جہاز سورج سے چھیالیس ملین اور زمین سے ایک سو پچپن ملین کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
سورج سے انتہائی قربت کی وجہ سے عطارد سائنسی تجربات کے لیے موزوں جگہ نہیں ہے۔ اس کی سطح اتنی گرم ہے کہ وہ سیسے کو بھی پگھلا دیتی ہے۔ اس گرم ماحول میں جہاں خلائی جہاز کو سورج کی تپش سے محفوظ رکھنے کے لیے اس پر حفاظتی چادر لگائی گئی ہے وہیں اس کے آلات کو عطارد کی حرارت سے بچانے کا خصوصی انتظام بھی کیا گیا ہے۔
عطارد کو اکثر لوگ ایک غیر دلچسپ دنیا قرار دیتے ہیں جس کے پاس دکھانے کو کچھ نہیں ہے لیکن وہ خلائی سائنسدان جنہوں نے اس سیارے پر کام کیا ہے اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کے مطابق عطارد دو انتہاؤں کی دنیا ہے اور جہاں سورج سے قریب ہونے کی وجہ سے اس کی سطح کا درجہ حرارت چھ سو سنٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے وہیں اس کے قطبین میں موجود ایسےگڑھوں میں آبی برف بھی موجود ہے جو ہمیشہ سائے میں رہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment