زلزلہ سے متعلق ایک عالمی ماہر کا کہنا ہے کہ جاپان کے جس شمال مشرقی علاقے میں سونامی نے قہر ڈھایا ہے وہاں ہر ہزار برس میں دوبارہ یہ قدرتی آفات آسکتی ہے۔
ڈاکٹر روجر موزن کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے اس واقعے اور سنہ آٹھ سو انہتر میں سینڈائی میں جو زبردست لہریں اٹھی تھیں دونوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
جاپان کے اس علاقے میں زلزلے کوئی نئی بات نہیں ہیں جس سے سمندری طوفان برپا ہوتے رہے ہیں۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں ایسے زلزلوں سے زبردست لہریں اٹھیں ہیں جس سے ساحلی علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
دنیا میں تیاری کے حوالے سے جاپان سے زیادہ بہتر کوئی بھی جگہ نہیں ہے لیکن عام طور پر آپ سات یا سات اعشاریہ پانچ پوائنٹ تک کی ہی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، لیکن نو کے سکیل سے زیادہ پر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن سابقہ جاپانی ماہرین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ اٹھ سو انہتر میں جوگان میں جو تباہی آئی تھی اس میں سونامی کا پانی زمین کی سطح پر چار کلومیٹر اندر تک پہنچ گيا تھا اور اس سے بڑے پیمانے پر سیلاب کی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔
حالیہ سونامی کی لہریں دس میٹر تک اونچی تھیں اور ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ زمین پر کتنی دور تک پہنچیں لیکن اطلاعات کے مطابق شاید وہ کئي میل تک گئیں۔
یہ تحقیقات پروفیسر کوجی مینورا کی سربراہی میں کی گئی تھیں اور وہ زلزلہ ریکٹر سکیل پر آٹھ اعشاریہ تین کی اسکیل پر تھا۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر سونامی کے واقعات تقریباً ہر ہزار برس میں ایک بار رونما ہوتے ہیں۔ زلزلے اور اس سے ہونے والی تباہی سے متعلق برطانوی ادارے ’برٹش جیولوجیکل سروے‘ کے سربراہ ڈاکٹر موزن کا کہنا ہے کہ حالیہ سونامی کا موازنہ سنہ آٹھ سو انہتر کے واقعے سے کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر موزن نے بی بی سی کو بتایا ’میرے خیال سے یہ بالکل اسی پیمانے کا ہوگا کیونکہ یہ سوچنا تو بہت مشکل ہے کہ اس علاقے میں اس سے بھی بڑا زلزلہ ہوسکتا ہے‘۔
ادارے کا ماننا ہے کہ اس علاقے میں سنہ انیس سو تینتیس اور اٹھارہ سو نوے میں اس سے بھی بڑے پیمانے کے زلزلے آئے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا ’ایک بہت ہی آسان حقیقت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ۔۔۔۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ نو شدت کے زلزلے کتنی بار آتے ہیں، تو پھر اس کی مناسبت سے آٹھ شدت کے زلزلے دس گنا زیادہ آئیں گے اور سات شدت کے تو تقریبا سو گنا زیادہ‘۔
لیکن ایک دوسرے محقق سے جب بی بی سی نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا وہ اس علاقے میں زلزلوں کے آنے کی فریکوئینسی سے متعلق نتائج اخذ کرنے میں احتیاط سے کام لیں گے۔
ماہرین کے مطابق ماضی میں آنے والے زلزلوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے کئی رائج طریقے ہیں جس سے ان کی ہیئیت اور ماہیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میں سے اہم ایک تاریخی ریکارڈز کا مطالعہ ہے اور دوسرے جیولوجیکل کے ریکارڈ ز ہیں۔
ایک بہت ہی آسان فیکٹ کو یاد رکھنا چاہیے کہ ۔۔۔۔ اگر آپ کو معلوم ہو کہ نو میگنیٹیوڈ کے زلزلے کتنی بار آتے ہیں، تو پھر اس کی مناسبت سے آٹھ میگنیٹیوڈ کے زلزلے دس گنا زیادہ آئیں گے اور سات میگنیٹیوڈ کے تو تقریبا سو گنا زیادہ۔
امریکہ کی جارجیا ٹیک یونیورسٹی میں سونامی سے متعلق ماہر پرفیسر ہرمین فرٹز کا کہنا ہے کہ ’دنیا میں تیاری کے حوالے سے جاپان سے زیادہ کوئی بھی جگہ نہیں ہے لیکن عام طور پر آپ سات یا سات اعشاریہ پانچ پوائنٹ تک کی ہی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں، لیکن نو کے سکیل سے زیادہ پر کچھ نہیں کیا جا سکتا‘۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلے اور سونامی کے سکیل کے درمیان بھی کوئی راست رشتہ نہیں ہے۔’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ شگاف کس طرح کی پڑتی ہے۔اگر شگاف سمندر کے فرش پر پڑتی ہے تو اس سے بڑے پیمانے پر بکھراؤ پیدا ہوتا ہے لیکن اگر یہ سات اعشاریہ دو کے پیمانے تک کہیں زمین کی گہرائی میں ہو تو پھر اس سے سونامی نہیں برپا ہوگي‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر واقعے کا اپنا ایک معاملہ ہے اور اس کو اسی مناسبت سے جانچنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے۔
No comments:
Post a Comment