Sunday, April 10, 2011

سرے راہے اتوار ‘ 6 جمادی الاوّل 1432ھ‘ 10 اپریل 2011ئ

گرفتار نوعمر دہشت گرد عمر نے انکشاف کیا ہے کہ میرعلی میں 400 سے زائد خودکش حملہ آور زیر تربیت ہیں‘ طالبان نے جنت کا لالچ دیکر خودکش حملہ پر اکسایا ہے اور اسے بتایا گیا کہ یہ جو مزاروں پر منتیں مانتے ہیں‘ یہ سب سے بڑے کافر ہیں‘ ان کا قتل روا ہے۔ 
اس کا مطلب ہے کہ خودکشوں کی بڑی ورائٹی ہے‘ کیونکہ خودکش بمبار تیار کرنےوالوں میں بھی خاصا تنوع پایا جاتا ہے۔ روپیہ پیسہ دیکر تو بھارتی بھی خودکش حملہ آور تیار کرتے ہیں اور براستہ افغانستان پاکستان ایکسپورٹ کرتے ہیں تاکہ پاکستان کو ڈی سٹیبل کیا جا سکے لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جو بڑی مشکل سے کسی مسلمان کو کافر قرار دیتا ہے اس لئے اگر کوئی کسی مزار پر جا کر منت مانتا ہے تو اسے فی الفور کافر نہیں کہنا چاہیے‘ بلکہ اسے خوش اسلوبی سے سمجھا دیا جائے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو ظاہر ہے اس کا ردعمل بھی سامنے آئیگا اور مسلمان آپس میں دست و گریباں ہو جائینگے۔ حالانکہ اصل ہدف تو کفر ہے کہ اسے ختم کیا جائے‘ جنت کا ملنا ایک عطیہ خداوندی ہے‘ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو خودکش حملہ کرتا ہے‘ وہ سیدھا جنت میں جائیگا‘ یہ وقت فرقہ واریت کو ہوا دینے کا نہیں‘ بلکہ مسلم فرقوں کو مل جل کر طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
اگر کوئی صاحبِ مزار کو اپنا خدا مانتا ہے یا وہاں مشرکانہ حرکات کا مرتکب ہوتا ہے‘ جیسے قبر کو سجدہ کرنا وغیرہ‘ تو اس کا علاج یہ ہے کہ ایسے نادانوں کو بٹھا کر اللہ کے قوانین سے آگاہ کیا جائے‘ اگر نوعمر بچوں کو خودکش حملے کی تربیت دی جا سکتی ہے تو مزارات پر غیرشرعی افعال انجام دینے والوں کی بھی تربیت کی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا کیا جائے تو اسکے مثبت نتائج نکلیںگے۔ ہم سب رب واحد کے ماننے والے ہیں‘ صرف غلطیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ 
٭....٭....٭....٭
ارسا نے پنجاب کا 45 فیصد پانی سندھ کو دیدیا‘ جبکہ پنجاب حکومت نے کہا ہے‘ اپنا حصہ بعد میں واپس لے لیں گے۔ ارسا کے چیئرمین نے کہا ہے‘ اس وقت پنجاب میں پانی کی ضرورت کم جبکہ سندھ میں طلب زیادہ ہے۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے نمائندے بھی شریک تھے۔
پنجاب نے ہمیشہ بڑا بھائی بن کر دکھایا ہے‘ اس لئے چھوٹے بھائیوں کو بھی بڑے کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ چاروں صوبوں نے مل بیٹھ کر سندھ کی ضرورت پوری کر دی اور پنجاب نے تقریباً اپنے حصہ کا آدھا پانی دے دیا‘ جو ضرورت پڑنے پر واپس لے لیا جائیگا۔ پنجاب کی طرف سے سندھ کو بھائی چارے کا سنہرا پیغام گیا ہے‘ جس کے اچھے نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ البتہ یہ بات ضرور سامنے رکھنی چاہیے کہ ارسا نے کیسے یہ تعین کرلیا کہ پنجاب میں اس وقت پانی کی ضرورت کم ہے اور پنجاب کیوں فوری طور پر قربانی کا بکرا بن جاتا ہے؟ ارسااور پنجاب حکومت کے نمائندے نے کیا پنجاب واٹر کونسل سے پوچھنے کی زحمت گوارا کی‘ بہرصورت یہ قربانی تو اب دیدی گئی‘ خدا کرے کہ قبول بھی کی جائے اور سندھ بھی کالاباغ ڈیم کی مخالفت ترک کر دے تاکہ یہ قربانیوں کا سلسلہ ہی ختم ہو جائے اور پنجاب کے بجائے بکرے ذبح کرکے عید قرباں منائی جائے۔ اس طرح صوبائی یکجہتی کو بھی تقویت ملے گی‘ ارسا اگر اتنی ہی فعال ہے کہ چاروں صوبوں کو یکجا کر سکتی ہے‘ تو یہ کیوں نہیں کر سکتی کہ چاروں صوبوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر راضی کرے۔ اللہ اس سے راضی ہو گا۔ ”صیاد“ اگر راضی نہ ہو تو بھی خیر ہے۔
٭....٭....٭....٭
لاہور فیصل آباد ٹرین کا اے سی جی ایم ریلوے کے سیلون کو لگا دیا گیا جبکہ پوری قوم کا خون حکام اور حکمرانوں کو لگا دیا گیا تو جی ایم ریلوے کو اگر عوام کا اے سی لگا دیا گیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ اس طرح ہی شاید جی ایم ٹھنڈے اور عوام گرم ہو جائیں اور اس گرمی سے پورا ملک گرم ہو کر اس ناکارہ سسٹم کو ٹھنڈا کر دے اور پھر جاپان سے کفن اور کابل سے غسال منگوا کر اسکی تجہیز و تکفین کی جائے۔ حالات تب ہی ٹھیک ہوتے ہیں جب بہت زیادہ خراب ہو جائیں۔ شر ہمیشہ خیر کو مہمیز کرتا ہے‘ کچھ روز ہوئے ہم نے ایک نوجوان کو تھڑے پر بیٹھے یہ گاتے ہوئے سنا....
جب دل ہی ٹوٹ گیا‘ ہم جی کے کیا کرینگے 
یہ گانا مجھے کچھ خودکش سا لگا تو میں اسکے پہلو میں سلام کرکے بیٹھ گیا اور اس سے کہا کہ دل کیا لکڑی کا بنا ہوا ہے‘ جو یوں ٹوٹ جائیگا؟ البتہ آپ جیسے نئی نسل کے نوجوان اگر ذرا سا زور لگائیں تو اس زبوں حالی و بدحالی کی ٹانگیں ٹوٹ سکتی ہیں اور اسی طرح ہی یہ ناسور زدہ سسٹم لنگڑاتا ہوا باہر نکل جائیگا اور شاہ ایران کے انجام سے دوچار ہو جائیگا۔ ہم اس جی ایم ریلوے کو سلام کرتے ہیں جس نے اپنی بے حسی کی اتنی تربیت کی ہے کہ عوام کیلئے لگایا گیا اے سی اپنے سیلون میں لگوا لیا۔ جی ایم کو تھڑے پر بیٹھے ہوئے نوجوان کے گانے کا نوٹس لینا چاہیے۔
٭....٭....٭....٭
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل حدیث‘ مجاہد ہیں اور اللہ کی راہ میں جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں‘ پچھلے دنوں ہمارے قلم سے یہ جملہ نکل گیا کہ ”کہیں ایسا تو نہیں کہ ” مردِحر وہابی ہو گئے ہیں اور وہ شہیدوں کو مانتے ہی نہیں“۔ 
ہم اس جملے کو اسکے تمام تر حروف سمیت واپس لیتے ہیں اور اپنے اہل حدیث بھائیوں سے بھرپور معذرت کرتے ہیں۔ یہ ایک فکاہیہ کالم ہے اور اس میں جو کچھ بھی لکھا جاتا ہے‘ وہ طنز و مزاح کا رنگ لئے ہوتا ہے‘ اس لئے اسکے مندرجات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے کہ ہماری مراد حاشا وکلا محظوظ کرنا ہوتا ہے‘ رنجور کرنا نہیں۔ ہم یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ ہم نے اس کالم میں بیسیوں مرتبہ اہل حدیث کی شہادتوں اور اللہ کی راہ میں قربانیوں کا ذکر کیا ہے‘ ہماری کئی اچھی باتوں کی خاطر ہماری ایک ناپسندیدہ بات کو معاف کر دیا جائے تو یہ عفو و درگزر کا ایسا مظاہرہ ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ اجر دینگے۔ آخر میں بزبانِ حافظ یہ تحفہ پیش خدمت ہے....
آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است 
بادوستاں تلطف بادشمناں مدار

No comments:

Post a Comment