بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
سندھ کے سابق صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کی قیادت انہیں ہٹانے کے لیے صدر آصف علی زرداری پر دباؤ ڈالتی رہی ہے۔
مگر ایم کیو نے ایم ڈاکٹر مرزا کی ’رخصت‘ کو پیپلز پارٹی کا اندرونی معاملہ قرار دیا اور کہا ہے کہ ایم کیو ایم نے کبھی بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا ۔
دوسری جانب تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی رخصتی، پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کو قریب لانے میں سازگار ثابت نہیں ہوگی۔
ذوالفقار مرزا نے جمعہ کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، صدر آصف علی زرداری سے ٹیلیفون پر بات چیت میں چھ مرتبہ انہیں ہٹانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ ’میری رخصتی دباؤ کا نتیجہ نہیں بلکہ اتحادیوں کی مہربانی کی وجہ سے میری چھٹی کی درخواست منظور ہوگئی جو میں نے تین ماہ پہلے سے دے رکھی تھی۔‘
ایم کیو ایم نے کبھی بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو ہٹانے کا مطالبہ نہیں کیا۔
حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی، ڈاکٹر مرزا کی رخصتی کو حکومت کی کمزوری قرار دیتی ہے۔ تنظیم کے صوبائی صدر شاہی سید کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بقول ان کے حکومت کی مجبوری اور بے بسی کا واضح ثبوت ہے جس سے امن کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
سینئر تجزیہ نگار غلام نبی کا کہنا ہے کہ حکومت جس رویے کا اظہار کر رہی ہے، اس سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ کمزور حکومت ہے اور اس میں اپنے موقف پر قائم رہنے کی اہلیت نہیں۔
موجودہ حکومت کے تین سال میں متحدہ قومی موومنٹ تین بار حکومت سے علیحدگی اختیار کرچکی ہے، جس میں ہر بار کسی نہ کسی طرح ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا حوالہ شامل رہا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی نائن زیرو آمد کے بعد ایم کیو ایم صوبائی حکومت میں تو واپس آگئی مگر وفاقی کابینہ میں شمولیت پر آمادہ نہیں ہوئی۔
پچھلے دنوں جب شہر میں مبینہ بھتہ خوری کے معاملے نے شدت اختیار کی تو ایم کیو ایم کی جانب سے ایک مرتبہ پھر انتہائی فیصلہ لینے کے بیانات سامنے آئے۔
شہر میں کئی نوگو ایریاز موجود ہیں، کٹی پہاڑی، بنارس چوک، اورنگی، کورنگی اور لانڈھی کے محلوں میں سرحدیں کھنچی ہوئی ہیں جہاں دہشت گردوں کی حکمرانی ہے اور حکومت صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے
سینئر صحافی ضیاالدین احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے مفادات متضاد ہیں۔ ذوالفقار مرزا ان مسائل پر آواز اٹھا رہے تھے اب جب انہیں ہٹا دیا گیا ہے تو دوسرا کوئی آواز اٹھائے گا مگر ہو سکتا ہے کہ وہ دوسری زبان استعمال کرے مگر مفادات کا ٹکراؤ رہے گا۔
’مجھے مستقبل قریب میں مسائل حل ہوتے نظر نہیں آتے، کراچی اور حیدرآباد میں ایم کیو ایم کی پوزیشن مضبوط ہے، ان کے پاس سٹریٹ اور انٹلیکچوئل پاور بھی ہے۔ پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے اس کی بنیاد سندھ ہے۔ وہ یہ ضرور کوشش کرتی رہے گی کہ یہ پاور اس کے پاس آجائے۔اس لیے ٹکراؤ جاری رہے گا۔‘
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور ایم کیو ایم میں اختلاف کی ایک وجہ شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگز بھی رہی۔ انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں 260 افراد ہلاک ہوئے جب کہ پولیس کے مطابق یہ تعداد 109 ہے۔
انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ اور وزیر قانون اقبال حیدر کا کہنا ہے کہ کراچی میں آپریش کلین اپ کی ضرورت ہے۔ ذوالفقار مرزا کے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔’یہ بات ٹھیک ہے کہ مرزا نے کئی غلطیاں کیں اور کئی ایسے بیانات دیے مگر ان کے جانے سے کراچی میں جو گروہ ہیں وہ تو مستعفی نہیں ہوئے اور نہ ان کی سرکوبی کی گئی ہے کراچی میں حکومت کو کوئی اختیار نہیں ہے۔‘
یہ بات ٹھیک ہے کہ مرزا نے کئی غلطیاں کیں اور کئی ایسے بیانات دیے مگر ان کے جانے سے کراچی میں جو گروہ ہیں وہ تو مستعفی نہیں ہوئے
اقبال حیدر
اقبال حیدر کا کہنا ہے کہ شہر میں کئی نوگو ایریاز موجود ہیں، کٹی پہاڑی، بنارس چوک، اورنگی، کورنگی اور لانڈھی کے محلوں میں سرحدیں کھنچی ہوئی ہیں جہاں دہشت گردوں کی حکمرانی ہے اور حکومت صرف ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے۔
ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو سینیٹر منتخب کرانے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس سلسلے میں اقلیتی سینیٹر کھٹومل کے مستعفی ہونے کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے تاہم پیپلز پارٹی نے تاحال اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
No comments:
Post a Comment