پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں دو مئی کے واقعات پر بحث تو ہوئی اور ایک قراداد کے ذریعے اس کی تحقیقات کا بھی حکم جاری کر دیا گیا لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ساڑھے نو گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس نے فوج کے بارے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے نظریات کی بظاہر قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
بلوچستان کے ارکان پارلیمنٹ کا رویہ۔
پاکستان میں گزشتہ کئی برس سے بلوچستان میں فوج اور اس کے خفیہ اداروں کے کردار کے بارے میں بلوچ سیاسی قیادت مختلف الزامات عائد کرتی رہی ہے اور مختلف فورمز پر فوج کے خلاف جذبات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
پارلیمنٹ کے عام اجلاس میں بعض اوقات فوج کے خلاف دھواں دار تقاریر سننے میں آتی ہیں اور مختلف سیمیناروں میں بھی یہ ارکان پارلیمنٹ فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں بعض اوقات نازیبا حد تک گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔
لیکن پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جب فوج اور آئی ایس آئی کو مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ارکان سیاست میں مداخلت سے لے کر بعض دیگر معاملات میں براہ راست تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے تو بلوچستان کے ارکان کی جانب سے خاموشی دیکھنے میں آئی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے صوبے کے بارے میں صرف ایک سینیٹر عبدالمالک بلوچ نے چند کلمات کہے جنہیں نہ ایوان میں کسی نے سنجیدگی سے سنا اور نہ ہی آئی ایس آئی کے سربراہ نے۔
اس دوران بلوچستان کے چودہ ارکان قومی اسمبلی اور اکیس ارکان سینیٹ یا تو اونگھتے نظر آئے یا آئی ایس آئی کے سربراہ اور ان کے حق میں ہونے والی تقریروں پر ڈیسک بجاتے رہے۔
میر حاصل بزنجو نے بی بی سی کے اصرار پر اپنے صوبے کے ارکان کے اپنے مسائل بیان نہ کرنے کے اس رویے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی صورتحال بہت عجیب ہے جس میں ارکان پارلیمنٹ کا کردار بہت محدود ہوتا جا رہا ہے۔
’بلوچستان کے ارکان سینیٹ اور قومی اسمبلی کی اکثریت ایسی ہے جو اپنی نشستیں خرید کر آئے ہیں یا پھر ان کا تعلق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔ ایسے میں وہ اپنے حقوق یا اپنے عوام پر ہونے والے مظالم کی بات کیسے کرتے‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور فوج مخالف نظریات۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں اس کے اپنے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ اس کی سیاست’انٹی اسٹیبلشمنٹ‘ ہے۔ اس کی پارٹی کے رہنما اکثر یہ کہتے بھی سنے جاتے ہیں کہ ان کے حلقے میں ان کا ووٹ بنک بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتا ہے جو فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جذبات رکھتا ہے۔
ایسے میں توقع کی جا رہی تھی کہ پیپلز پارٹی کے ارکان بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے اور ملکی تاریخ میں اپنے ساتھ فوج اور اس کی ایجنسیوں کی مبینہ زیادتیوں کا کم از کم ذکر ضرور کریں گے۔
اصل میں ہوا کیا۔ پیپلز پارٹی کے بعض ارکان پارلیمنٹ تسلیم کرتے ہیں کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کے بیان کے دوران اس کے ارکان بار بار ڈیسک بجاتے رہے۔
سید ظفر علی شاہ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور وہ اس کے ابتدائی ارکان میں شامل ہیں۔ ان کی توجہ جب ان کی جماعت کے اس رویے کی جانب دلوائی گئی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ پارلیمنٹ میں ان کی جماعت خاص طور پر سندھ کے عوام اور ملک بھر میں پھیلے اپنے ووٹرز کے جذبات کی درست ترجمانی نہیں کر پائی۔ وجہ اس کی انہوں نے کچھ یوں بتائی۔
’جناب آئیڈٹیلزم (نظریات) کی سیاست ختم ہو گئی۔اب عملیت کا دور ہے۔ اب تو ترجیح یہ ہے کہ حکومت کو کیسے قائم رکھا جائے۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ ہماری پارٹی میں یہ خرابی یا غلطی کہاں اور کیسے پیدا ہوئی۔ لیکن ایک بات ہے کہ یہ آخری موقع ہے کہ اس طرح کی سیاست چلے گی‘۔
متحدہ قومی موومنٹ کی محبت۔
جو ارکان پارلیمنٹ آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقریر کے دوران ڈیسک بجانے میں پیش پیش رہے ان میں متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کی فوج کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہ بات اب ریکارڈ پر بھی آ چکی ہے کہ متحدہ کے خلاف ایک سے زیادہ بار ہونے والی فوجی کارروائی میں اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
اس کے باوجود متحدہ کا فوج کے ایک افسر کی تقریر پر بار بار ڈیسک بجانا بہت سوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ متحدہ کے رکن قومی اسمبلی اس کی وضاحت کرتے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ایسا فورم نہیں تھا کہ جہاں پرانے گلے شکوے کیے جاتے۔ اپنی غلطی پر شرمندگی کا اظہار کرنے والے کی حوصلہ افزائی میں ڈیسک بجانا بھی غلط نہیں ہے۔
’ہم اپنے اوپر ہونے والے برسوں پر مبنی ظلم کا تذکرہ کر سکتے تھے لیکن ہم نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ کیونکہ ہم وہاں پاکستان کو درپیش حالیہ چیلنج سے بچانے کے لیے گئے تھے۔ پاکستان سے ہماری محبت غیر مشروط ہے۔ اگر ہم نے ماضی میں تکلیفیں برداشت کی ہیں اور کر رہے ہیں، تو یہ پاکستان کی محبت پر قربان کی جا سکتی ہیں‘۔
نواز لیگ، مارشل لا کی پیدوار؟
پاکستان کی مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے حق میں بننے والی اس فضا کو خراب اس جماعت نے کیا جسے اس کے مخالفین مارشل کا لگایا ہوا پودا قرار دیتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان پارلیمنٹ نے آئی ایس آئی کے سربراہ کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا اس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ یہ جماعت فوج کے ہاتھوں بارہ سال پہلے حکومت کھو چکنے کے باعث کسی حد تک تازہ زخم خوردہ ہے۔
لیکن اس کے ارکان نے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان کے سامنے جو رویہ اختیار کیا اس کی توقع شاید اس جماعت کو خود بھی نہیں تھی۔
مثلاً سینیٹر پرویز رشید کا آئی ایس آئی کے سربراہ کو مخاطب کر کے یہ جملہ کہنا کہ ’ہم یہاں سیاسی تقریر یا ڈانٹ سننے نہیں آئے۔ ہمارے سوالوں کا جواب دیا جائے‘۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان کا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے متعلق پوچھے گئے اپنے سوال کا جواب نہ ملنے پر آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقریر میں بار بار مداخلت کرنا اور اپنا جواب لیے بغیر ٹلنے سے انکار کرنا۔ چوہدری نثار علی خان کا کہنا کہ ’اگر آپ کی ایجنسیاں سیاستدانوں کا پیچھا کرنے کے بجائے اپنے اصل کام پر توجہ دیتیں تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا‘۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یہ ایسی صورتحال تھی جس نے دہائیوں پر مبنی سیاسی جماعتوں کے نظریات اور ان کے افعال میں تضاد کے بارے میں حقائق بہت سوں کے سامنے کھول کر رکھ دیئے۔
No comments:
Post a Comment