Tuesday, June 14, 2011

جی ایچ کیو حملہ: ’کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل‘


 

فائل فوٹو، جی ایچ کیو حملہ
جی ایچ کیو پر حملے میں گیارہ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے
پاکستانی بری فوج کے صدر دفاتر یعنی جی ایچ کیو پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث گیارہ افراد کے خلاف راولپنڈی میں قائم ایک فوجی عدالت میں کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل کر لی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق جی ایچ کیو پر حملے کے الزامات کے تحت ان سویلین افراد کو کسی بھی وقت سزا سنائی جا سکتی ہے۔
فوجی عدالت کے قوانین کے تحت دفاعی تنصیب پر حملے اور اس کی جاسوسی کرنے کے الزام کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔
پاکستانی فوج کے ایک بریگیڈیئر کی سربراہی میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی یہ کارروائی راولپنڈی میں ایک خفیہ مقام پر پانچ ماہ تک جاری رہی۔
اس دوران ملزمان کے وکلاء کو دفاع کے لیے وکیل کرنے کا حق دیا گیا لیکن ان وکلاء کے بقول صفائی کے گواہان عدالت میں پیش ہونے سے یا تو کتراتے رہے یا پیشی سے پہلے ہی ’لاپتہ‘ ہوتے رہے۔
دس اکتوبر دو ہزار نو کی صبح دس مسلح افراد نے پاکستانی فوج کے راولپنڈی میں واقع ہیڈ کوارٹر یعنی جی ایچ کیو پر دستی بموں اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ کیا تھا۔
خود کش جیکٹس پہنے یہ مسلح افراد جی ایچ کیو کے بیرونی گیٹ پر تعینات محافظوں کو ہلاک کر کے جی ایچ کیو میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے جہاں انہوں نے جی ایچ کیو کے بیسیوں ملازمین کو کئی گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا تھا۔
حملہ آوروں کے خلاف فوجی کمانڈوز کی کارروائی کے دوران دس میں سے نو حملہ آور ہلاک ہوئے تھے اور عقیل عرف ڈاکٹر عثمان نامی شدت پسند کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اس حملے میں گیارہ فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔
وہ یا ملزمان کے اہل خانہ اس مقدمے کا فیصلہ آ جانے تک اس کی کارروائی پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کرنا چاہتے
انعام الرحمنٰ ایڈووکیٹ
جن افراد پر کورٹ مارشل کے تحت مقدمہ چلایا گیا ہے ان میں سے عقیل اور ان کے ایک اور ساتھی عمران پاکستانی فوج کی میڈیکل کور سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ جن دیگر پانچ افراد کو اس مقدمے کا سامنا ہے ان میں خلیق الرحمٰن، عثمان عکا، واجد محمود، محمد عدنان اور طاہر شفیق شامل ہیں۔
یہ تمام سویلین عقیل کے دوست سمجھے جاتے ہیں اور فوجی استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ افراد جی ایچ کیو پر حملے کے منصوبے سے آگاہ تھے اور عقیل کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔
ان ملزمان کے وکلاء کے پینل کے رکن انعام الرحمٰن ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یا ملزمان کے اہل خانہ اس مقدمے کا فیصلہ آ جانے تک اس کی کارروائی پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔
تاہم انہوں نے اس مقدمے کے آغاز پر بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ سویلین افراد کا فوجی عدالت کے ذریعے کورٹ مارشل آئین کے خلاف ہے۔
ملک کے قانون کے مطابق فوجی عدالت کے فیصلے کو پاکستان کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
راولپنڈی بار کونسل نے گزشتہ دنوں ایک قرارداد کے ذریعے فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔

    No comments:

    Post a Comment