Tuesday, February 8, 2011

جمہوریت کی بقا کیلئے آزاد عدلیہ ضروری ہے‘ منتخب حکومت نے آمر کے اقدامات کی توثیق کی نہ کالعدم قرار دیا : چیف جسٹس

حیدرآباد دکن (ریڈیو نیوز+ این این آئی+ اے پی پی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کی بقاءکے لئے آزاد عدلیہ ضروری ہے، آئین نے سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ضروری اختیارات دیئے ہیں‘ آئین پاکستان ریاست کو ذمہ دار قرار دیتا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ کرے‘ پاکستان میں عدلیہ مختلف مراحل سے گزری ہے‘ غیرآئینی اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر عدلیہ نے ہر حالت میں اپنی آزادی کو یقینی بنایا کیونکہ عدلیہ سمجھتی ہے کہ آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی سے ہی ملک میں جمہوری نظام کی ضمانت دی جا سکتی ہے، فوجی حکمرانی سے نہیں‘ قانون اور آئین کے مطابق بنیادی حقوق کے تحفظ اور تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے لئے آزاد عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے۔ 3 نومبر 2007ءکو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ نے ایمرجنسی کے نفاذ سے اپنے آپ کو دور رکھا اور سپریم کورٹ نے اسی روز ایک سنگ میل حکم کے تحت ان اقدامات کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا۔ عدلیہ‘ قانونی برادری‘ طلبہ‘ میڈیا اور دیگر طبقوں کی مزاحمت کے باوجود فوجی آمر نے طاقت کے زور پر حکمرانی جاری رکھی تاہم غیرآئینی ہتھکنڈوں کے ذریعے برطرف کی گئی اعلیٰ عدلیہ بحال ہوئی۔ جمہوری حکومت نے فوجی حکمران کے اقدامات کی توثیق نہیں کی تاہم ان اقدامات کو کالعدم بھی قرار نہ دیا۔ عدلیہ نے بالآخر آئین سے انحراف کے اس سلسلے کو ختم کیا اور قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری قائم کی۔ اتوار کو دولت مشترکہ کی 17 ویں لاءکانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے پچھلے چند برسوں میں اپنی آزادی کے لئے بہت جدوجہد کی ہے تاکہ اس پر غیرضروری دباﺅ نہ ڈالا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ اپنے آئینی اختیارات کے عین مطابق سپریم کورٹ نے پچھلے چند برسوں میں عدلیہ کو صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار اور خودمختار بنانے کیلئے جدوجہد کی ہے تاکہ عدلیہ انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی غیرضروری دباﺅ یا رغبت کا شکار نہ ہو سکے اور بغیر خوف قانون کے مطابق انصاف مہیا کر سکے۔ سپریم کورٹ نے مختلف مواقع پر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تاریخی نوعیت کے فیصلے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی آزادی کیلئے ان اداروں کے اندر شفافیت اور احتساب ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے زرعی شعبہ کو بھاری اور خطیر سبسڈیز دے کر ترقی پذیر ممالک کے کاشتکاروں کو مساوی مواقع سے محروم کر رہے ہیں، امریکہ اور یورپ کے 30 صنعتی ممالک نے 2009ءکے دوران اپنے زرعی شعبہ کو اڑھائی سو ارب ڈالر کی سبسڈیز دیں۔ ایک طرف تو یہ ممالک اپنی مختصر زرعی افرادی قوت کو خطیر رقوم کی سبسڈیز دے رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او زراعت پر انحصار کرنے والی معیشتوں کو سبسڈی دینے سے منع کر رہے ہیں۔ انسانیت کی پائیدار اور مساوی ترقی کیلئے تمام ممالک کو قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر بلاامتیاز عمل کرنا ہو گا، پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کیلئے جاری جدوجہد کے دوران دولت مشترکہ وکلاءایسوسی ایشن نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے ہم مشکور ہیں۔انہوں نے کہا کہ خلفائے راشدین نے عدالتی حکام اور قاضی کے سامنے پیش ہوکر مثالیں پیش کیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں حکمران اور رعایا میں کوئی فرق نہیں۔ انہوںنے کہاکہ قرآن میں کہا گیا ہے ”اے لوگو: ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبائل بنا دیا گیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو یقیناً اللہ کی نظر میں وہی بہتر ہے جو انتہائی پرہیز گار ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور ہر چیز سے باخبر ہے“۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد نے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا: ”تمام انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں کسی عربی کو غیر عرب اور غیر عرب کو عرب پر فوقیت حاصل نہیں‘ گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں سوائے اچھے کردار اور تقویٰ کے۔“

No comments:

Post a Comment