Tuesday, February 8, 2011

مشرف کا نام عبوری چالان میں شامل


مشرف کا نام عبوری چالان میں شامل

سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے زیر استعمال موبائل فون کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا گیا
سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو قتل کیس کی تحقیقات کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کی ٹیم نے عدالت میں پیش کیے گئے اس مقدمے کے عبوری چالان میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کا نام بھی شامل کرلیا ہے۔
اس مقدمے میں سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار علی کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کو ملزم قرار دیا گیا ہے جبکہ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ عبوری چالان میں نام آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شخص ملزم بھی ہیں۔
اس مقدمے میں سرکاری وکیل چودھری ذوالفقار احمد کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے سابق سٹی پولیس افسر راولپنڈی ڈی آئی جی سعود عزیز اور ایس پی خُرم شہزاد وقوعہ کے روز یعنی ستائیس دسمبر سنہ دوہزار سات کو اُس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کے احکامات پر عمل درآمد کرتے رہے۔
سرکاری وکیل نے اس مقدمے کی سماعت کرنے والے انسداد دہشت گردی کے جج کو بتایا کہ پرویز مشرف کا نام مذکورہ دونوں پولیس افسران سے کی جانے والی تفتیش کی روشنی میں چالان میں لکھا گیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ سعود عزیز کو سابق فوجی آمر گوجرانوالہ سے راولپنڈی لیکر آئے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی بینظیر بھٹو کی قتل کی سازش میں شامل ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی سابق آرمی چیف سے بینظیر بھٹو کے قتل سے پہلے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس حوالے سے ایک سوالنامہ بھی اُنہیں بھیجا گیا لیکن اُنہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
چند ماہ قبل اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بینظیر بھٹو کے قتل کے سلسلے میں ایک سوالنامہ لندن بھجوایا تھا
اسلام آباد میں ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق چند ماہ قبل اس مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو بینظیر بھٹو کے قتل کے سلسلے میں ایک سوالنامہ لندن بھجوایا تھا جس کا کوئی جواب نہیں آیا۔
چودھری ذوالفقار علی نے عدالت کو بتایا کہ گرفتار ہونے والے ان پولیس افسران نے سابق فوجی آمر کے کہنے پر نہ صرف بینظیر بھٹو کی سکیورٹی پر تعینات اے ایس پی اشفاق انور کو ہٹایا بلکہ اُن کے حکم پر جائے حادثہ کو بھی دھو دیا جس سے جائے حادثہ سے اہم شواہد بھی مٹا دیے گئے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر پرویز مشرف اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی ٹیم کے سامنے پیش نہ ہوئے تو اُنہیں اشتہاری قرار دلوانے کے لیے عدالت میں درخواست دی جائے گی۔
اس مقدمے کے چالان میں سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے زیر استعمال موبائل فون کا ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کے پاکستان آنے سے پہلے پرویز مشرف کی طرف سے لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ اُن(بینظیر بھٹو) کی سکیورٹی اُن (پرویز مشرف) کے ساتھ تعاون پر مشروط ہے۔
دونوں ملزمان کے وکیل ملک وحید انجم نے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش دو سال سے زائد عرصے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کے موکلوں کو سیاسی مقاصد کے لیے اس مقدمےمیں پھنسایا جا رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے تین سال کے بعد سابق ایس ایس پی آپریشن راولپنڈی یاسین فاروق کا مجسٹریٹ کے سامنے بیان دلوانے دراصل اُس وقت کے بینظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر رحمان ملک کو بچانے کی کوشش ہے جنہوں نے پولیس حکام کو یقین دلایا تھا کہ بینظیر بھٹو جلسہ گاہ سے واپسی پر گاڑی کے باہر سر نہیں نکالیں گی۔
ملک وحید انجم کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے زیر استعمال موبائل فون کے ریکارڈ میں 23 دسمبر سنہ دوہزار سات کے بعد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ موبائل فون کے ریکارڈ کو مسخ کیا گیا ہے۔
سرکاری وکیل نے درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کے زیر استعمال موبائل فون برآمد ہونے کے بعد ان پولیس افسران سے مذید پوچھ گچھ کرنا ابھی باقی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز نے ابھی تک وہ موبائل فون تفتیشی ٹیم کے حوالے نہیں کیا جو وقوعہ کے روز اُن کے استعمال میں تھا۔
عدالت نے ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
ڈائریکر جنرل ایف آئی اے وسیم احمد سے سابق صدر پرویز مشرف کا نام بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کے عبوری چالان میں شامل کرنے سے متعلق پوچھنے کے لیے رابطہ کیا گیا تو اُن کے دفتر میں تعینات ایک افسر نے بتایا کہ چالان میں کسی شخص کا نام آنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ملزم بھی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر درخواست گُزار کسی شخص کا نام دیتا ہے اور اُس سے معلومات حاصل کرنے کے لیے پوچھ گچھ کی جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس مقدمے میں ملزم بھی ہے۔

No comments:

Post a Comment