احتیاط صاحبان ایوان،”لائیو“ پروگرام واپس نہیں آتے!
ـ 21 گھنٹے 34 منٹ پہلے شائع کی گئیرفیق عالم ۔۔۔
پتہ نہیں کس بات پر صدر آصف زرداری اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے مولانا فضل الرحمان اور صدر کشمیر کمیٹی اور میاں منظور احمد وٹو وزیر امور کشمیر کی خوشی کے مارے باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی بھنبھناہٹ بھی دیکھنے والوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ اس وقت آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عتیق احمد خاں، کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت کی بات کر رہے تھے۔ بظاہر وہ بہت مستحکم نظر آ رہے تھے لیکن روایتی گھن گرج آواز میں موجود نہیں تھی۔ سیانے آدمی ہیں، تجربہ بہت کچھ سکھا دیتا ہے، وہ دل کی کیفیت کو تقریر کے الفاظ میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ منظر اس تقریب کا تھا جو 5 فروری کو یوم یکجہتی کے موقعہ پر ایوان صدر میں پہلی بار منعقد ہوئی۔ سب لوگوں نے اسے براہ راست نہیں دیکھا کہ اس وقت بیشتر غیر سرکاری چینلز متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خطاب کو براہ راست نشر کر رہے تھے۔ البتہ پی ٹی وی سرکاری چینل ہونے کے ناتے ایوان صدر سے کارروائی براہ راست نشر کر رہا تھا اور یہ مناظر بار بار دکھا رہا تھا۔ پتہ نہیں اس کالم کے چھپنے تک اس ”لاپرواہی“ کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہو گی یا نہیں، لیکن یہ تقریب اس وقت جو منظر دکھا رہی تھی، کافی لوگوں نے دیکھی۔ پھر بات منہ سے نکلتی ہے تو موبائل فون کے دور میں چند لمحوں کے اندر کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ تین شخصیات منتخب صاحبان ایوان ہیں۔ آصف زرداری، ایوان صدر، مولانا فضل الرحمان اور میاں منظور احمد وٹو، قومی اسمبلی کے صاحبان ہیں۔ وزارتیں چھوڑنے کے باوجود مولانا کی جمعیت علمائے اسلام ابھی تک پیپلز پارٹی کی دوست ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تعقات 1970ءکے انتخابات سے تہہ و بالا ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ تب پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ مولانا مفتی محمود مرحوم کی جماعت اس کے مقابلے میں جہاں دیدہ اور پختہ کار تھی۔ دونوں جماعتوں میں پہلا اختلاف اسی الیکشن کے باعث ہوا کہ مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کر دی۔
1970ءکے بظاہر آزاد اور غےر جانبدار مگر پاکستان کے لئے جان لیوا الیکشن ہو گئے مگر اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو منتقل نہیں ہوا، مذاکرات ہوتے رہے، ٹوٹتے رہے، بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ بھٹو صاحب تب اقوام متحدہ میں تھے۔ وہاں سے مسیحا بن کر اسلام آباد پہنچے۔ جنرل یحییٰ خان سے صدارت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے لئے، انہیں فارغ کیا، دونوں حلف اٹھائے اور نئے پاکستان کی تعمیر کا عزم لے کر میدان میں آ گئے۔ 1973ءکا ”متفقہ“ آئین بنا۔ پہلے اس میں مشرقی پاکستان کی جگہ رکھی گئی، ”واپسی“ یا ”پیش رفت“ کی گنجائش دی گئی۔ صرف چند مہینے بعد ”میں، اللہ کا نام لے کر بنگلہ دیش کو تسلیم کرتا ہوں“ کے ساتھ ہی یہ باب بند ہو گیا۔ نئے پاکستان میں پیپلز پارٹی کی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے نبھ نہیں سکی کہ پی پی وہاں بھی اپنی حکومت بنانا چاہتی تھی۔ فروری 1975ءمیں حیات محمد خاں شیرپاﺅ ایک تقریب کے دوران بم دھماکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو نیپ پر پابندی لگ گئی، مفتی محمود احتجاج کرتے رہ گئے۔
1977ءمیں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلی تو مولانا مفتی محمود، اپوزیشن پارٹیوں کے اس قومی اتحاد، پی این اے کے سربراہ تھے جو ملک گیر تحریک چلا رہی تھی۔ بھٹو صاحب میں لچک پیدا کرنے اور ہر موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجود تھی۔ اسی لئے انہوں نے جناب مجید نظامی سے رابطہ کرکے جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ سے بھی ملاقات کی۔ ”امریکی ہاتھی“ ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ اس سازش کی دہائی انہوں نے راولپنڈی کے بازاروں میں کاغذات لہراتے ہوئے دی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کو آئینی قرار دیا اور وفاداری کا یقین دلایا۔ چند ہفتوں بعد غیر آئینی حرکت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا، دو سال بعد سپریم کورٹ سے ملنے والی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا۔ مولانا مفتی محمود نے قرار دیا تھا۔ ”شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے“ لیکن سچ یہ ہے کہ اسی پاکستان نے، اپنے قیام کی مخالفت کرنے والوں کو بین الاقوامی سطح پر شناخت دی اور ملک کے اندر اب تک اقتدار کے مزے ہی مزے دیئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سیانے اور کماﺅ پوت ہیں، لوگ ان پر حکومت سے مراعات لینے اور بلیک میل کرنے کے الزامات لگاتے ہیں لیکن ان کی اس خوبی کا اعتراف نہیں کرتے کہ وہ اپنے (سیاست کے) پتے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ ”ناں ناں“ کرتے ہوئے نجانے کب وہ کس انداز میں ”ہاں“ کہہ جاتے ہیں۔
5 فروری کو ایوان صدر کی تقریب میں ان سے ”سہو“ ضرور ہو گیا۔ ان کے ذہن میں احتیاط نہیں آئی۔ کیمرہ مین حق وفاداری میں سب کچھ ریکارڈ کرتا رہا اور شاہ سے زیادہ اس کا وفادار یہ سب ”آن ائر“ بھیجتا رہا۔ اس تقریب میں صدر آصف زرداری نے ”زور“ دے کر کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر سودے بازی نہیں کرے گا اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کا فیصلہ مذاکرات کی میز پر کیا جائے گا۔ جب وہ یہ باتیں کہہ رہے تھے پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ اس سے کہیں زیادہ، عملی اقدامات کی بات کر رہے تھے، کشمیر کو آزاد کرانے کا عہد دہرا رہے تھے۔ اس بیان سے، ایوب خانی مارشل لا کی آمد کے وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی یاد تازہ ہو گئی جو پہلے یونینسٹ تھے۔ مسلم لیگ نے زور پکڑا تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ وزیراعلی پنجاب بنے، مرکز میں وزیر رہے، گورنر رہے، خان عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ری پبلکن پارٹی میں شامل ہوئے، پھر مسلم لیگ میں آ گئے۔ ملک فیروز خان نون نے 5 جولائی 1958ءکو گورنر ہاﺅس لاہور میں کہا تھا کہ کسی مسئلہ پر کسی بھی حالت میں ہندوستان سے جنگ نہیں کریں گے۔ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے بھی تمام پرامن ذرائع استعمال کریں گے۔ تب قومی اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کے اس بیان پر بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ اب کیا ہو گا، اللہ جانے، ارکان اسمبلی جانیں لیکن احتیاط تو لازم ہے ورنہ ایسے پروگرام ”لائیو“ نہیں جانے چاہئیں کہ ”آن ائر“ جانے والے پروگرام کیمرے میں واپس نہیں آتے!
پتہ نہیں کس بات پر صدر آصف زرداری اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے مولانا فضل الرحمان اور صدر کشمیر کمیٹی اور میاں منظور احمد وٹو وزیر امور کشمیر کی خوشی کے مارے باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی بھنبھناہٹ بھی دیکھنے والوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ اس وقت آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عتیق احمد خاں، کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت کی بات کر رہے تھے۔ بظاہر وہ بہت مستحکم نظر آ رہے تھے لیکن روایتی گھن گرج آواز میں موجود نہیں تھی۔ سیانے آدمی ہیں، تجربہ بہت کچھ سکھا دیتا ہے، وہ دل کی کیفیت کو تقریر کے الفاظ میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ منظر اس تقریب کا تھا جو 5 فروری کو یوم یکجہتی کے موقعہ پر ایوان صدر میں پہلی بار منعقد ہوئی۔ سب لوگوں نے اسے براہ راست نہیں دیکھا کہ اس وقت بیشتر غیر سرکاری چینلز متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خطاب کو براہ راست نشر کر رہے تھے۔ البتہ پی ٹی وی سرکاری چینل ہونے کے ناتے ایوان صدر سے کارروائی براہ راست نشر کر رہا تھا اور یہ مناظر بار بار دکھا رہا تھا۔ پتہ نہیں اس کالم کے چھپنے تک اس ”لاپرواہی“ کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہو گی یا نہیں، لیکن یہ تقریب اس وقت جو منظر دکھا رہی تھی، کافی لوگوں نے دیکھی۔ پھر بات منہ سے نکلتی ہے تو موبائل فون کے دور میں چند لمحوں کے اندر کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ تین شخصیات منتخب صاحبان ایوان ہیں۔ آصف زرداری، ایوان صدر، مولانا فضل الرحمان اور میاں منظور احمد وٹو، قومی اسمبلی کے صاحبان ہیں۔ وزارتیں چھوڑنے کے باوجود مولانا کی جمعیت علمائے اسلام ابھی تک پیپلز پارٹی کی دوست ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تعقات 1970ءکے انتخابات سے تہہ و بالا ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ تب پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ مولانا مفتی محمود مرحوم کی جماعت اس کے مقابلے میں جہاں دیدہ اور پختہ کار تھی۔ دونوں جماعتوں میں پہلا اختلاف اسی الیکشن کے باعث ہوا کہ مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کر دی۔
1970ءکے بظاہر آزاد اور غےر جانبدار مگر پاکستان کے لئے جان لیوا الیکشن ہو گئے مگر اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو منتقل نہیں ہوا، مذاکرات ہوتے رہے، ٹوٹتے رہے، بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ بھٹو صاحب تب اقوام متحدہ میں تھے۔ وہاں سے مسیحا بن کر اسلام آباد پہنچے۔ جنرل یحییٰ خان سے صدارت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے لئے، انہیں فارغ کیا، دونوں حلف اٹھائے اور نئے پاکستان کی تعمیر کا عزم لے کر میدان میں آ گئے۔ 1973ءکا ”متفقہ“ آئین بنا۔ پہلے اس میں مشرقی پاکستان کی جگہ رکھی گئی، ”واپسی“ یا ”پیش رفت“ کی گنجائش دی گئی۔ صرف چند مہینے بعد ”میں، اللہ کا نام لے کر بنگلہ دیش کو تسلیم کرتا ہوں“ کے ساتھ ہی یہ باب بند ہو گیا۔ نئے پاکستان میں پیپلز پارٹی کی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے نبھ نہیں سکی کہ پی پی وہاں بھی اپنی حکومت بنانا چاہتی تھی۔ فروری 1975ءمیں حیات محمد خاں شیرپاﺅ ایک تقریب کے دوران بم دھماکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو نیپ پر پابندی لگ گئی، مفتی محمود احتجاج کرتے رہ گئے۔
1977ءمیں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلی تو مولانا مفتی محمود، اپوزیشن پارٹیوں کے اس قومی اتحاد، پی این اے کے سربراہ تھے جو ملک گیر تحریک چلا رہی تھی۔ بھٹو صاحب میں لچک پیدا کرنے اور ہر موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجود تھی۔ اسی لئے انہوں نے جناب مجید نظامی سے رابطہ کرکے جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ سے بھی ملاقات کی۔ ”امریکی ہاتھی“ ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ اس سازش کی دہائی انہوں نے راولپنڈی کے بازاروں میں کاغذات لہراتے ہوئے دی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کو آئینی قرار دیا اور وفاداری کا یقین دلایا۔ چند ہفتوں بعد غیر آئینی حرکت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا، دو سال بعد سپریم کورٹ سے ملنے والی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا۔ مولانا مفتی محمود نے قرار دیا تھا۔ ”شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے“ لیکن سچ یہ ہے کہ اسی پاکستان نے، اپنے قیام کی مخالفت کرنے والوں کو بین الاقوامی سطح پر شناخت دی اور ملک کے اندر اب تک اقتدار کے مزے ہی مزے دیئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سیانے اور کماﺅ پوت ہیں، لوگ ان پر حکومت سے مراعات لینے اور بلیک میل کرنے کے الزامات لگاتے ہیں لیکن ان کی اس خوبی کا اعتراف نہیں کرتے کہ وہ اپنے (سیاست کے) پتے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ ”ناں ناں“ کرتے ہوئے نجانے کب وہ کس انداز میں ”ہاں“ کہہ جاتے ہیں۔
5 فروری کو ایوان صدر کی تقریب میں ان سے ”سہو“ ضرور ہو گیا۔ ان کے ذہن میں احتیاط نہیں آئی۔ کیمرہ مین حق وفاداری میں سب کچھ ریکارڈ کرتا رہا اور شاہ سے زیادہ اس کا وفادار یہ سب ”آن ائر“ بھیجتا رہا۔ اس تقریب میں صدر آصف زرداری نے ”زور“ دے کر کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر سودے بازی نہیں کرے گا اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کا فیصلہ مذاکرات کی میز پر کیا جائے گا۔ جب وہ یہ باتیں کہہ رہے تھے پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ اس سے کہیں زیادہ، عملی اقدامات کی بات کر رہے تھے، کشمیر کو آزاد کرانے کا عہد دہرا رہے تھے۔ اس بیان سے، ایوب خانی مارشل لا کی آمد کے وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی یاد تازہ ہو گئی جو پہلے یونینسٹ تھے۔ مسلم لیگ نے زور پکڑا تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ وزیراعلی پنجاب بنے، مرکز میں وزیر رہے، گورنر رہے، خان عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ری پبلکن پارٹی میں شامل ہوئے، پھر مسلم لیگ میں آ گئے۔ ملک فیروز خان نون نے 5 جولائی 1958ءکو گورنر ہاﺅس لاہور میں کہا تھا کہ کسی مسئلہ پر کسی بھی حالت میں ہندوستان سے جنگ نہیں کریں گے۔ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے بھی تمام پرامن ذرائع استعمال کریں گے۔ تب قومی اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کے اس بیان پر بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ اب کیا ہو گا، اللہ جانے، ارکان اسمبلی جانیں لیکن احتیاط تو لازم ہے ورنہ ایسے پروگرام ”لائیو“ نہیں جانے چاہئیں کہ ”آن ائر“ جانے والے پروگرام کیمرے میں واپس نہیں آتے!
No comments:
Post a Comment