حیدرآباد دکن (ریڈیو نیوز+ این این آئی+ اے پی پی) چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کی بقاءکے لئے آزاد عدلیہ ضروری ہے، آئین نے سپریم کورٹ کو بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ضروری اختیارات دیئے ہیں‘ آئین پاکستان ریاست کو ذمہ دار قرار دیتا ہے کہ وہ عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ کرے‘ پاکستان میں عدلیہ مختلف مراحل سے گزری ہے‘ غیرآئینی اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر عدلیہ نے ہر حالت میں اپنی آزادی کو یقینی بنایا کیونکہ عدلیہ سمجھتی ہے کہ آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی سے ہی ملک میں جمہوری نظام کی ضمانت دی جا سکتی ہے، فوجی حکمرانی سے نہیں‘ قانون اور آئین کے مطابق بنیادی حقوق کے تحفظ اور تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کے لئے آزاد عدلیہ کا وجود ناگزیر ہے۔ 3 نومبر 2007ءکو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدلیہ نے ایمرجنسی کے نفاذ سے اپنے آپ کو دور رکھا اور سپریم کورٹ نے اسی روز ایک سنگ میل حکم کے تحت ان اقدامات کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا۔ عدلیہ‘ قانونی برادری‘ طلبہ‘ میڈیا اور دیگر طبقوں کی مزاحمت کے باوجود فوجی آمر نے طاقت کے زور پر حکمرانی جاری رکھی تاہم غیرآئینی ہتھکنڈوں کے ذریعے برطرف کی گئی اعلیٰ عدلیہ بحال ہوئی۔ جمہوری حکومت نے فوجی حکمران کے اقدامات کی توثیق نہیں کی تاہم ان اقدامات کو کالعدم بھی قرار نہ دیا۔ عدلیہ نے بالآخر آئین سے انحراف کے اس سلسلے کو ختم کیا اور قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری قائم کی۔ اتوار کو دولت مشترکہ کی 17 ویں لاءکانفرنس سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار چودھری نے کہا کہ پاکستانی سپریم کورٹ نے پچھلے چند برسوں میں اپنی آزادی کے لئے بہت جدوجہد کی ہے تاکہ اس پر غیرضروری دباﺅ نہ ڈالا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ اپنے آئینی اختیارات کے عین مطابق سپریم کورٹ نے پچھلے چند برسوں میں عدلیہ کو صحیح معنوں میں آزاد، غیرجانب دار اور خودمختار بنانے کیلئے جدوجہد کی ہے تاکہ عدلیہ انتظامیہ کی جانب سے کسی بھی غیرضروری دباﺅ یا رغبت کا شکار نہ ہو سکے اور بغیر خوف قانون کے مطابق انصاف مہیا کر سکے۔ سپریم کورٹ نے مختلف مواقع پر اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تاریخی نوعیت کے فیصلے دیئے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی آزادی کیلئے ان اداروں کے اندر شفافیت اور احتساب ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے زرعی شعبہ کو بھاری اور خطیر سبسڈیز دے کر ترقی پذیر ممالک کے کاشتکاروں کو مساوی مواقع سے محروم کر رہے ہیں، امریکہ اور یورپ کے 30 صنعتی ممالک نے 2009ءکے دوران اپنے زرعی شعبہ کو اڑھائی سو ارب ڈالر کی سبسڈیز دیں۔ ایک طرف تو یہ ممالک اپنی مختصر زرعی افرادی قوت کو خطیر رقوم کی سبسڈیز دے رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او زراعت پر انحصار کرنے والی معیشتوں کو سبسڈی دینے سے منع کر رہے ہیں۔ انسانیت کی پائیدار اور مساوی ترقی کیلئے تمام ممالک کو قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر بلاامتیاز عمل کرنا ہو گا، پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کیلئے جاری جدوجہد کے دوران دولت مشترکہ وکلاءایسوسی ایشن نے بھی اہم کردار ادا کیا جس کے ہم مشکور ہیں۔انہوں نے کہا کہ خلفائے راشدین نے عدالتی حکام اور قاضی کے سامنے پیش ہوکر مثالیں پیش کیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں حکمران اور رعایا میں کوئی فرق نہیں۔ انہوںنے کہاکہ قرآن میں کہا گیا ہے ”اے لوگو: ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت کے جوڑے سے پیدا کیا پھر تمہیں قومیں اور قبائل بنا دیا گیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو یقیناً اللہ کی نظر میں وہی بہتر ہے جو انتہائی پرہیز گار ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا اور ہر چیز سے باخبر ہے“۔ ہمارے پیغمبر حضرت محمد نے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا: ”تمام انسان آدم اور حوا کی اولاد ہیں کسی عربی کو غیر عرب اور غیر عرب کو عرب پر فوقیت حاصل نہیں‘ گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت نہیں سوائے اچھے کردار اور تقویٰ کے۔“
پیر ‘ 3؍ ربیع الاول 1432 ھ‘ 7؍ فروری ‘ 2011ء
ـ 1 دن پہلے شائع کی گئیوزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے کہا ہے: بھارت تنہا ہوچکا ساری دنیا کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ دل کے خوش رکھنے کو عتیق یہ خیال اچھا ہے۔
مگر بھارت سے تو اب آپ کے آزاد کشمیر کو بھی خطرہ ہے، دنیا اگر کشمیریوں کا ساتھ دیتی توچکوٹھی میں رات بھر بھارتی فوج فائرنگ نہ کرتی رہتی او ر آپ کی رعایا نے شب جاگ کر گزاری، ساری دنیا ساتھ ہے مگر کہیں سے اس انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی مذمت نہیں ہوئی ، یہ مغالطے، یہ خوش فہمیاں، آپ کی وزارت عظمیٰ کو تنکوں پر کھڑا کرنے کیلئے تو کافی ہیں مگر بھارت مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے بازار کو وسعت دیناچاہتا ہے اس کا بھی کبھی آپ نے سوچا اور چکوٹھی کے المیے کا سردار جی آپ نے کیا جوا ب دیا، بھارت تنہا ہے، حالانکہ کفر جو ملتِ واحدہ ہے اُس کے ساتھ ہے۔یوں لگتا ہے کہ پاکستان اور آپ آزاد کشمیر کی آزادی پر ہی اکتفا ء کرچکے ہیں، مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کیلئے آپ نے جہادِ کشمیر کی مد میں کیا کارنامہ انجام دیا ہے، مجاہدِ اول نے آپ کو اپنی سیاسی بصیرت سے دوسری باروزیراعظم تو بنوا دیا مگر اُن کی پہلی گولی ہنوز چلی نہیں یا کہیں راہ میں ہی رہ گئی ہے، اپنے لوگوں میں جہاد کی تیاری کی روح پھونکیں پاکستان آپ کے ساتھ ہے ،ہماری مراد 18کروڑ پاکستانی ہیں۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک حصہ کشمیری آزاد اور تین حصہ کشمیری بھارتی بوٹوں تلے روندے جارہے ہیں،یہ سات لاکھ بھارتی فوج کسی منصوبے کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آپ کے روبرو کھڑی کی گئی ہے، سردار صاحب اقبال آپ سے کہہ رہے ہیں…؎
تیغ و تفنگ دست مسلماں میں ہے کہاں
ہو بھی، تو دل ہیں موت کی لذت سے بے خبر
٭…٭…٭…٭…٭
امریکی ٹی وی فاکس مسلسل یہ خبر نشر کر رہا ہے کہ ریمنڈ کو جلد رہا کردیاجائے گا جبکہ پاکستانی سفارتخانے نے اس کی تردید کی ہے ۔
یہ امریکی لومڑ ٹی وی خداجانے کس غلط فہمی میں ہے، ایک امریکی مشٹنڈا لاہور آیا اور اُس نے دن کے اجالے میں تین پاکستانی خرمستی میں آکر مار دئیے کیا18کروڑ پاکستانی اُس کو صحیح سلامت واپس امریکہ جانے دینگے، ابھی تو معاملہ عدالت میں ہے اور ریمنڈ نے اقرار جرم بھی کرلیا ہے، ہمارے حکمرانوں پر نہ جائیں اگرچہ انہوں نے قوم کو یہی کہا ہے کہ عدالت جو فیصلہ کرے گی وہ اس پر عملدرآمد کرائیں گے مگر ان کے ارادوں کے اظہار فاکس ٹی وی سے ہورہا ہے ۔وہ جو مرضی ارادہ باندھے رکھیں پاکستان کے غیور لوگ ریمنڈ کو پاکستان سے باہر قدم نہیں رکھنے دینگے، امریکی دبائو ہے مگر اس دبا ئو سے ممکن ہے حکمران دب جائیں، پاکستانی قوم نہیں دبے گی بلکہ یہ اور ابھرے گی اس لئے کہ امریکہ نے بہت کرلیا، اب مزید گنجائش نہیں، عافیہ اگرچہ بے گناہ ہے اور اُس نے کوئی اقرار جرم بھی نہیں کیا پھر بھی ہمارے کسی ٹی وی نے یہ خبر بار بار نہیں چلائی کہ عافیہ واپس آرہی ہے،سفارشی دستاویزات اول تو ہیں ہی نہیں اگرجعلی بنا کر پیش بھی کردی گئیںتو کیا کسی سفارت کار کو یہ اجازت ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے معصوم شہریوں کو گولیوں کا نشانہ بنا کر زندگی سے محروم کردے امریکہ کی آستین سے ہمارا لہو ٹپک رہا ہے اس کا ایک قطرہ بھی رائیگاں نہیں جائے گا ، ہمارے حکمران اگرچہ امریکی مرضی کے تابع ہیں مگر وہ شاید 18کرو ڑ عوام کی سرکشی کا رسک نہ لیں اور ممکن ہے کہ اُن کا ضمیر جاگ اُٹھے اور ریمنڈ کا بخت سو جائے…؎
گرچہ ہے میری جستجودیروحرم کی نقش بند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ وہ سومنات میں
٭…٭…٭…٭…٭
2شہیدوں کے65سالہ باپ نے کہا: ہزار بیٹے ہوں تو بھی کشمیر پر قربان کردوں، جماعۃ الدعوۃ کے یکجہتی کشمیر کاررواں میں شریک 65سالہ بزرگ کے جہاد کشمیر میں دو بیٹے شہید ہونے کے بعد اُس کا یہ کہنا کہ ہزار بیٹے ہوں تو بھی کشمیر پر قربان کردوں نے اُس خاتون کی یاد تازہ کردی جس کے آٹھ بیٹے غزوہ احد میں شہید ہوگئے تو رسول اللہؐ اُس کے گھر تشریف لے گئے اُس موقع پر اُس خاتون نے کہا: یہ تو آٹھ شہید ہوئے اگر اور بھی ہوتے تو ناموس اسلام پر شہید ہونے کیلئے بھیج دیتی ، مجھے فخر ہے کہ میں آٹھ شہیدوں کی ماں ہوں، آپ تو مجھے مبارکباد دیں۔حکمران جو جہاد کشمیر کو مذاکرات بیکار میں بدل رہے ہیں اپنے عوام میں سے اس بزرگ کو ایک نہ سمجھیں ہر بزرگ اپنے بیٹے جہاد کشمیر کیلئے وقف کرنے کو تیار ہے،یہ آواز ہمارے مذاکراتی چیمپئنوں کو پہنچ جانی چاہئے اور کرشنا تک تو اس کی گونج نے رسائی پاہی لی ہوگی، کشمیر کے بارے میں اب صرف جہاد ہی کے ذریعے مذاکرات ہوں گے اور یہ مذاکرات کی میزپر نہیں قلزم خون میں برپا ہوں گے، کشمیری اور پاکستانی مسلمان جہاد پر متفق ہی نہیں آمادۂِ پیکار بھی ہیں،63سالہ مذاق کی رات ڈھل چکی، ڈیڑھ لاکھ شہیدوں کا خون مجاہدوں کی رگ و پے میں سرایت کرچکا، ہم 65سالہ بزرگ کو سلام کرتے ہیںجس نے آج کے پُرفتن دور میں عہد نبوی کی یادتازہ کردی ہمارا جہاد ہمار ا حق دفاع ہے…؎
تعلیم اُس کو چاہئے ترکِ جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہوخطر
احتیاط صاحبان ایوان،”لائیو“ پروگرام واپس نہیں آتے!
ـ 21 گھنٹے 34 منٹ پہلے شائع کی گئیرفیق عالم ۔۔۔
پتہ نہیں کس بات پر صدر آصف زرداری اور ان کے دائیں بائیں بیٹھے مولانا فضل الرحمان اور صدر کشمیر کمیٹی اور میاں منظور احمد وٹو وزیر امور کشمیر کی خوشی کے مارے باچھیں کھلی جا رہی تھیں۔ ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کی بھنبھناہٹ بھی دیکھنے والوں کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔ اس وقت آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار عتیق احمد خاں، کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت کی بات کر رہے تھے۔ بظاہر وہ بہت مستحکم نظر آ رہے تھے لیکن روایتی گھن گرج آواز میں موجود نہیں تھی۔ سیانے آدمی ہیں، تجربہ بہت کچھ سکھا دیتا ہے، وہ دل کی کیفیت کو تقریر کے الفاظ میں چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ منظر اس تقریب کا تھا جو 5 فروری کو یوم یکجہتی کے موقعہ پر ایوان صدر میں پہلی بار منعقد ہوئی۔ سب لوگوں نے اسے براہ راست نہیں دیکھا کہ اس وقت بیشتر غیر سرکاری چینلز متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے خطاب کو براہ راست نشر کر رہے تھے۔ البتہ پی ٹی وی سرکاری چینل ہونے کے ناتے ایوان صدر سے کارروائی براہ راست نشر کر رہا تھا اور یہ مناظر بار بار دکھا رہا تھا۔ پتہ نہیں اس کالم کے چھپنے تک اس ”لاپرواہی“ کے ذمہ داروں سے پوچھ گچھ کی گئی ہو گی یا نہیں، لیکن یہ تقریب اس وقت جو منظر دکھا رہی تھی، کافی لوگوں نے دیکھی۔ پھر بات منہ سے نکلتی ہے تو موبائل فون کے دور میں چند لمحوں کے اندر کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ تین شخصیات منتخب صاحبان ایوان ہیں۔ آصف زرداری، ایوان صدر، مولانا فضل الرحمان اور میاں منظور احمد وٹو، قومی اسمبلی کے صاحبان ہیں۔ وزارتیں چھوڑنے کے باوجود مولانا کی جمعیت علمائے اسلام ابھی تک پیپلز پارٹی کی دوست ہے۔ جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تعقات 1970ءکے انتخابات سے تہہ و بالا ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ تب پیپلز پارٹی کو قائم ہوئے صرف تین سال ہوئے تھے۔ مولانا مفتی محمود مرحوم کی جماعت اس کے مقابلے میں جہاں دیدہ اور پختہ کار تھی۔ دونوں جماعتوں میں پہلا اختلاف اسی الیکشن کے باعث ہوا کہ مولانا غلام غوث ہزاروی مرحوم نے ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت کر دی۔
1970ءکے بظاہر آزاد اور غےر جانبدار مگر پاکستان کے لئے جان لیوا الیکشن ہو گئے مگر اقتدار اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو منتقل نہیں ہوا، مذاکرات ہوتے رہے، ٹوٹتے رہے، بالآخر ملک ٹوٹ گیا۔ بھٹو صاحب تب اقوام متحدہ میں تھے۔ وہاں سے مسیحا بن کر اسلام آباد پہنچے۔ جنرل یحییٰ خان سے صدارت اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے عہدے لئے، انہیں فارغ کیا، دونوں حلف اٹھائے اور نئے پاکستان کی تعمیر کا عزم لے کر میدان میں آ گئے۔ 1973ءکا ”متفقہ“ آئین بنا۔ پہلے اس میں مشرقی پاکستان کی جگہ رکھی گئی، ”واپسی“ یا ”پیش رفت“ کی گنجائش دی گئی۔ صرف چند مہینے بعد ”میں، اللہ کا نام لے کر بنگلہ دیش کو تسلیم کرتا ہوں“ کے ساتھ ہی یہ باب بند ہو گیا۔ نئے پاکستان میں پیپلز پارٹی کی صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے نبھ نہیں سکی کہ پی پی وہاں بھی اپنی حکومت بنانا چاہتی تھی۔ فروری 1975ءمیں حیات محمد خاں شیرپاﺅ ایک تقریب کے دوران بم دھماکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو نیپ پر پابندی لگ گئی، مفتی محمود احتجاج کرتے رہ گئے۔
1977ءمیں بھٹو حکومت کے خلاف تحریک چلی تو مولانا مفتی محمود، اپوزیشن پارٹیوں کے اس قومی اتحاد، پی این اے کے سربراہ تھے جو ملک گیر تحریک چلا رہی تھی۔ بھٹو صاحب میں لچک پیدا کرنے اور ہر موقعہ سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت موجود تھی۔ اسی لئے انہوں نے جناب مجید نظامی سے رابطہ کرکے جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ سے بھی ملاقات کی۔ ”امریکی ہاتھی“ ان کے پیچھے لگ گیا تھا۔ اس سازش کی دہائی انہوں نے راولپنڈی کے بازاروں میں کاغذات لہراتے ہوئے دی۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کو آئینی قرار دیا اور وفاداری کا یقین دلایا۔ چند ہفتوں بعد غیر آئینی حرکت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا، دو سال بعد سپریم کورٹ سے ملنے والی سزائے موت کو برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کو پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا۔ مولانا مفتی محمود نے قرار دیا تھا۔ ”شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے“ لیکن سچ یہ ہے کہ اسی پاکستان نے، اپنے قیام کی مخالفت کرنے والوں کو بین الاقوامی سطح پر شناخت دی اور ملک کے اندر اب تک اقتدار کے مزے ہی مزے دیئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سیانے اور کماﺅ پوت ہیں، لوگ ان پر حکومت سے مراعات لینے اور بلیک میل کرنے کے الزامات لگاتے ہیں لیکن ان کی اس خوبی کا اعتراف نہیں کرتے کہ وہ اپنے (سیاست کے) پتے بہت سوچ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ ”ناں ناں“ کرتے ہوئے نجانے کب وہ کس انداز میں ”ہاں“ کہہ جاتے ہیں۔
5 فروری کو ایوان صدر کی تقریب میں ان سے ”سہو“ ضرور ہو گیا۔ ان کے ذہن میں احتیاط نہیں آئی۔ کیمرہ مین حق وفاداری میں سب کچھ ریکارڈ کرتا رہا اور شاہ سے زیادہ اس کا وفادار یہ سب ”آن ائر“ بھیجتا رہا۔ اس تقریب میں صدر آصف زرداری نے ”زور“ دے کر کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر سودے بازی نہیں کرے گا اور یہ کہ مسئلہ کشمیر کا فیصلہ مذاکرات کی میز پر کیا جائے گا۔ جب وہ یہ باتیں کہہ رہے تھے پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ اس سے کہیں زیادہ، عملی اقدامات کی بات کر رہے تھے، کشمیر کو آزاد کرانے کا عہد دہرا رہے تھے۔ اس بیان سے، ایوب خانی مارشل لا کی آمد کے وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی یاد تازہ ہو گئی جو پہلے یونینسٹ تھے۔ مسلم لیگ نے زور پکڑا تو مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ وزیراعلی پنجاب بنے، مرکز میں وزیر رہے، گورنر رہے، خان عبدالغفار خان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں ری پبلکن پارٹی میں شامل ہوئے، پھر مسلم لیگ میں آ گئے۔ ملک فیروز خان نون نے 5 جولائی 1958ءکو گورنر ہاﺅس لاہور میں کہا تھا کہ کسی مسئلہ پر کسی بھی حالت میں ہندوستان سے جنگ نہیں کریں گے۔ تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے بھی تمام پرامن ذرائع استعمال کریں گے۔ تب قومی اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کے اس بیان پر بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ اب کیا ہو گا، اللہ جانے، ارکان اسمبلی جانیں لیکن احتیاط تو لازم ہے ورنہ ایسے پروگرام ”لائیو“ نہیں جانے چاہئیں کہ ”آن ائر“ جانے والے پروگرام کیمرے میں واپس نہیں آتے
نُورِ بَصیِرتْ… میاں عبدالّرشید ـ 1 دن پہلے شائع کی گئی
شاہ ولی اللہؒ نے اپنے فارسی ترجمہ قرآن پاک کے حاشیہ پر الاماظہر کی وضاحت میں لکھا ہے ’’یعنی وجہ و کفین‘‘ (چہرہ اور دونوں ہاتھ)
اس کی تائید اس حدیث شریف سے ہوتی ہے جس کے مطابق جناب رسالت مآبؐ نے حضرت اسمائؓ سے فرمایا کہ عورت کو اپنا بدن ڈھانپ کے رکھنا چاہئے سوائے اسکے۔ آنجنابؐ نے چہرہ اور دونوں ہاتھوں کی جانب اشارہ فرمایا۔
عمرہ و حج کے موقع پر عورتوں کیلئے جو احرام مقرر ہے‘ اس میں ہاتھ اور چہرہ لازماً کھلا رہتا ہے۔
اسلام دین فطرت ہے اور اسکے احکام سب کیلئے ہیں۔ صرف طبقہ امرا کیلئے نہیں۔ جو عورتیں محنت مزدوری کرتی ہیں‘ مثلاً مٹی ڈھوتی ہیں‘ باہر سے چارہ کاٹ کے لاتی ہیں‘ وہ کیسے ہاتھوں پر دستانے یا چہرے پر نقاب یا پائوں میں جرابیں پہن سکتی ہیں۔
اس سلسلہ میں قرآن پاک کے چند اور احکام ہیں جن کے ذریعہ آداب معاشرت سکھائے ہیں۔ ان میں سے بعض حضور اکرمؐ کی ازواج مطہرات کے واسطہ سے ارشاد فرمائے اور بعض براہ راست۔
1۔ خواتین زمانہ جاہلیت کا سا بنائو (سنگھار) کر کے گھروں سے باہر نہ گھومتی پھریں بلکہ گھر میں رہیں۔
آج کل ماڈرن عورتیں میک اپ کر کے باہر گھومنا بہت پسند کرتی ہیں۔ اسلام میں عورتوں کا بلاضرورت گھر سے نکلنا مناسب نہیں۔
۲۔ گھروں سے باہر نکلیں تو چادر اوڑھ کر نکلیں تاکہ وہ بطور شریف پہچانی جائیں۔ (۳۳-۹۵)
(جلابیت کا ترجمہ اوڑھنے کیلئے کھلا کپڑا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں چادر ہی ایسا کپڑا ہے) قرآن پاک کے نزدیک شریف خواتین کی یہی پہچان ہے۔
۳۔ ازواج مطہرات سے براہ راست اور جملہ خواتین اسلام کو بالواسطہ فرمایا کہ مردوں سے نرم لہجے میں بات نہ کریں مبادا وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے (جو ہر بات کو جنسیت کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں) اس سے اور مطلب لیں بلکہ ان سے عام جانے بوجھے انداز میں بات کی جائے یعنی انداز گفتگو میں بے تکلفی کا شائبہ نہ ہو۔
۴۔ مردوں سے فرمایا کہ اگر انہوں نے کسی گھر سے کوئی چیز مانگنی ہو (اور گھر میں کوئی مرد نہ ہو) تو پردہ کے پیچھے سے مانگیں۔ یہ طریق مردوں اور عورتوں دونوں کے قلوب کی زیادہ پاکیزگی کیلئے بہتر ہے۔ (۳۳-۴۵) بغیر اجازت اور بغیر سلام کے دوسرے کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت فرمائی۔
کسی دوسرے کے گھر میں جانا ہو تو اجازت لے کر اندر جائو۔ گھر میں کوئی مرد نہ ہو اور کوئی چیز مانگنی ہو تو اوٹ کے پیچھے سے مانگیں۔
No comments:
Post a Comment