پروفیسر نعیم مسعود ۔۔۔
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز جاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان ممالک کی ترقی کی بنیادی وجہ ان کی حکومتوں کا تعلیم اور صحت کے معاملات کے علاوہ عدل و انصاف کے تناظر میں حساس ہونا ہے، ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور انصاف کم از کم تین طبقوں میں تقسیم ہیں۔ خط افلاس سے نیچے والے طبقے کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ عام آدمی بھی اچھی تعلیم، صحت اور انصاف کے حصول کے صرف خواب ہی بنتا ہے اور اشرافیہ کیلئے یہ تینوں چیزیں ’دسترس‘ میں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں محمود و ایاز میں تفریق نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور عدل و انصاف کے حصول کیلئے ادارے اور سہولتیں مختلف ہیں بلکہ بہت مختلف ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی، کامیابی اور کامرانی کیلئے درمیانہ طبقہ اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بیوروکریسی، جاگیردارانہ طرز عمل اور صنعتکارانہ رویوںکے سبب پاکستان میں درمیانہ طبقہ صبح، دوپہر شام امتحانات میں ہوتا ہے۔ جرنیلوں، کرنیلوں، ججوں،جاگیرداروں اور ’’سیاہ ست‘‘ دانوں کے اس پاکستان میں، پاکستان ہی کی ترقی کیلئے ان کے پاس کوئی وقت ہے نہ نیت۔
صحت کے حوالے سے ایک قابل غور چیز پر ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پالیسی سازوں اور اشرافیہ کا توجہ نامی کردار سرے سے موجود ہی نہیں۔ ساری ترقی یافتہ دنیا میں ایک میڈیکل آفیسر یا ڈاکٹر کے ساتھ کئی کئی پیرا میڈیکل کے لوگ ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں کئی کئی میڈیکل آفیسرز اور ڈاکٹروں کے ساتھ کوئی ایک پیرا میڈیکل کا بندہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمران سرکاری و پرائیویٹ سیکٹر میں ڈاکٹروں اور اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنی طرف سے بہت ’’زور‘‘ لگا رہے ہیں لیکن پیرا میڈیکل اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حتیٰ کہ نرسنگ پر بھی خاصی توجہ ہے لیکن پیرا میڈیکل کورسز روز اول سے توجہ کا محتاج ہے بلاشبہ ڈاکر حضرات اپنا احسن کردار ادا کرنے میں کوشاں ہیں اور بلا مبالغہ نرسنگ سٹاف بھی دن رات محنت کرتا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان یا پھر اعلیٰ میڈیکل تعلیم یافتہ اور مریضوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے پیرا میڈیکل سٹاف کا وجود اور اہمیت پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ نرسنگ میں زیادہ تر خواتین ہیں اس صنف نازک کا کردار اپنی حد تک قابل تحسین ہے لیکن فیلڈ میں، ہسپتال کے باہر دور دراز آفت زدہ علاقوں میں، پہاڑوں اور ریگستانوں میں جب آفتیں آتی ہیں تو پیرا میڈیکل سٹاف کے فرائض اور ضروریات سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ان مواقع پر یہ بطور اسسٹنٹ ڈاکٹر اور بطور نرس بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب پہ پیرا میڈیکل ڈاکٹر اور نرسز کم ہونے کے سبب بھی اہم فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ چشم فلک گواہ ہے کہ 2005 کے زلزلہ امتحان میں پیرا میڈیکل سٹاف نے چوٹیوں سے وادیوں تک اپنا کردار ادا کیا پھر حالیہ سیلاب میں بھی یہ قابل ستائش ٹھہرے۔
بدقسمتی و بدنصیبی یہ ہے کہ کچھ لوگ پیرا میڈیکل کے ڈسپنسر، لیب ٹیکنیشن، ریڈیو گرافر، آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی، آپتھالمالوجی سمیت متعدد ٹیکنیشن اور ٹیکنالوجسٹ کورسز اور ڈگری کے دشمن ہو گئے ہیں۔ ماضی میں ایک طویل جدوجہد کی بدولت پمز اسلام آباد میں ایک کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی کا تحفہ ہمیں جاپان نے دیا۔ اس کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی میں ایف ایس سی میڈیکل ٹیکنالوجی کے چھ کورسز روشناس کرائے گئے۔ مختصر یہ کہ پیرا میڈیکل کو ڈپلومہ کم ایف ایس سی میں بدلا گیا تاکہ ڈپلومہ کی طرح طالب علم جام نہ ہو جائے اور بی ایس سی اورا یم ایس سی تک چلا جائے یعنی فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اس کا امتحان لیتا۔ یہ ایک اچھی اور قابل ستائش شروعات تھی۔ لیکن اس جاپان کے تحفہ، پھلتے پھولتے کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی اور پیرا میڈیکل جدتوں کو نظر لگ گئی، کسی نے ڈرگ رجسٹریشن کے چکر میں، کسی نے اقربا پروری کے سائے میں اور کسی نے ڈگری کے شکوک و شبہات کے معاملہ میں خوب نام ’’کمایا‘‘ ہے۔ کہیں کوئیJED (ایڈمن) کے نام سے نت نئی پوسٹ پیدا کی گئی ہے تو کہیں ایف ایس سی میڈیکل ٹیکنالوجی والوں کو جھانسہ دیا گیا ہے کہ آپ کو فیڈرل میڈیکل کالج میں داخلہ دیا جائے گابس چپ رہیں۔
ایم بی بی ایس میں داخلہ کیلئے تو ایف ایس سی پری میڈیکل یا پھر ان مضامین کے ساتھ اے لیول درکار ہوتا ہے۔ جانے ان معصوم طلبہ کے ساتھ دھوکہ دہی کیوں!! صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم پاکستان، چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی، وفاقی وزیر صحت ا س بات کا نوٹس لیں کہ، جاپان کے تحفہ کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی سے ٹیکنالوجی کیوں چھینی جا رہی ہے۔ آخر جاپان کیا سوچے گا اور مستقبل میں تو بی ایس سی فزیو تھراپی، بی ایس سی فزیوتھراپی اور بی ایس سی آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی جیسی چیزیں درکار ہیں، پیرا میڈیکل کورسز اور اس کی ایف ایس سی میڈیکل ٹیکنالوجی کے علاوہ میڈیکل ٹیکنالوجی کے بی ایس سی آنرزکو جنہیں ماضی قریب میں امریکہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح متعارف کرایا گیا۔ پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے خاتمہ کی نہیں!!
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز جاننا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ان ممالک کی ترقی کی بنیادی وجہ ان کی حکومتوں کا تعلیم اور صحت کے معاملات کے علاوہ عدل و انصاف کے تناظر میں حساس ہونا ہے، ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور انصاف کم از کم تین طبقوں میں تقسیم ہیں۔ خط افلاس سے نیچے والے طبقے کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ عام آدمی بھی اچھی تعلیم، صحت اور انصاف کے حصول کے صرف خواب ہی بنتا ہے اور اشرافیہ کیلئے یہ تینوں چیزیں ’دسترس‘ میں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں محمود و ایاز میں تفریق نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ ہمارے ہاں تعلیم، صحت اور عدل و انصاف کے حصول کیلئے ادارے اور سہولتیں مختلف ہیں بلکہ بہت مختلف ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی، کامیابی اور کامرانی کیلئے درمیانہ طبقہ اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بیوروکریسی، جاگیردارانہ طرز عمل اور صنعتکارانہ رویوںکے سبب پاکستان میں درمیانہ طبقہ صبح، دوپہر شام امتحانات میں ہوتا ہے۔ جرنیلوں، کرنیلوں، ججوں،جاگیرداروں اور ’’سیاہ ست‘‘ دانوں کے اس پاکستان میں، پاکستان ہی کی ترقی کیلئے ان کے پاس کوئی وقت ہے نہ نیت۔
صحت کے حوالے سے ایک قابل غور چیز پر ذرا سی توجہ کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پالیسی سازوں اور اشرافیہ کا توجہ نامی کردار سرے سے موجود ہی نہیں۔ ساری ترقی یافتہ دنیا میں ایک میڈیکل آفیسر یا ڈاکٹر کے ساتھ کئی کئی پیرا میڈیکل کے لوگ ہوتے ہیں اور ہمارے ہاں کئی کئی میڈیکل آفیسرز اور ڈاکٹروں کے ساتھ کوئی ایک پیرا میڈیکل کا بندہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمران سرکاری و پرائیویٹ سیکٹر میں ڈاکٹروں اور اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنی طرف سے بہت ’’زور‘‘ لگا رہے ہیں لیکن پیرا میڈیکل اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حتیٰ کہ نرسنگ پر بھی خاصی توجہ ہے لیکن پیرا میڈیکل کورسز روز اول سے توجہ کا محتاج ہے بلاشبہ ڈاکر حضرات اپنا احسن کردار ادا کرنے میں کوشاں ہیں اور بلا مبالغہ نرسنگ سٹاف بھی دن رات محنت کرتا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان یا پھر اعلیٰ میڈیکل تعلیم یافتہ اور مریضوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے پیرا میڈیکل سٹاف کا وجود اور اہمیت پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ نرسنگ میں زیادہ تر خواتین ہیں اس صنف نازک کا کردار اپنی حد تک قابل تحسین ہے لیکن فیلڈ میں، ہسپتال کے باہر دور دراز آفت زدہ علاقوں میں، پہاڑوں اور ریگستانوں میں جب آفتیں آتی ہیں تو پیرا میڈیکل سٹاف کے فرائض اور ضروریات سب سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ان مواقع پر یہ بطور اسسٹنٹ ڈاکٹر اور بطور نرس بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ زلزلہ ہو یا سیلاب پہ پیرا میڈیکل ڈاکٹر اور نرسز کم ہونے کے سبب بھی اہم فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ چشم فلک گواہ ہے کہ 2005 کے زلزلہ امتحان میں پیرا میڈیکل سٹاف نے چوٹیوں سے وادیوں تک اپنا کردار ادا کیا پھر حالیہ سیلاب میں بھی یہ قابل ستائش ٹھہرے۔
بدقسمتی و بدنصیبی یہ ہے کہ کچھ لوگ پیرا میڈیکل کے ڈسپنسر، لیب ٹیکنیشن، ریڈیو گرافر، آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی، آپتھالمالوجی سمیت متعدد ٹیکنیشن اور ٹیکنالوجسٹ کورسز اور ڈگری کے دشمن ہو گئے ہیں۔ ماضی میں ایک طویل جدوجہد کی بدولت پمز اسلام آباد میں ایک کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی کا تحفہ ہمیں جاپان نے دیا۔ اس کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی میں ایف ایس سی میڈیکل ٹیکنالوجی کے چھ کورسز روشناس کرائے گئے۔ مختصر یہ کہ پیرا میڈیکل کو ڈپلومہ کم ایف ایس سی میں بدلا گیا تاکہ ڈپلومہ کی طرح طالب علم جام نہ ہو جائے اور بی ایس سی اورا یم ایس سی تک چلا جائے یعنی فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن اس کا امتحان لیتا۔ یہ ایک اچھی اور قابل ستائش شروعات تھی۔ لیکن اس جاپان کے تحفہ، پھلتے پھولتے کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی اور پیرا میڈیکل جدتوں کو نظر لگ گئی، کسی نے ڈرگ رجسٹریشن کے چکر میں، کسی نے اقربا پروری کے سائے میں اور کسی نے ڈگری کے شکوک و شبہات کے معاملہ میں خوب نام ’’کمایا‘‘ ہے۔ کہیں کوئیJED (ایڈمن) کے نام سے نت نئی پوسٹ پیدا کی گئی ہے تو کہیں ایف ایس سی میڈیکل ٹیکنالوجی والوں کو جھانسہ دیا گیا ہے کہ آپ کو فیڈرل میڈیکل کالج میں داخلہ دیا جائے گابس چپ رہیں۔
ایم بی بی ایس میں داخلہ کیلئے تو ایف ایس سی پری میڈیکل یا پھر ان مضامین کے ساتھ اے لیول درکار ہوتا ہے۔ جانے ان معصوم طلبہ کے ساتھ دھوکہ دہی کیوں!! صدر پاکستان آصف علی زرداری، وزیراعظم پاکستان، چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی، وفاقی وزیر صحت ا س بات کا نوٹس لیں کہ، جاپان کے تحفہ کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی سے ٹیکنالوجی کیوں چھینی جا رہی ہے۔ آخر جاپان کیا سوچے گا اور مستقبل میں تو بی ایس سی فزیو تھراپی، بی ایس سی فزیوتھراپی اور بی ایس سی آپریشن تھیٹر ٹیکنالوجی جیسی چیزیں درکار ہیں، پیرا میڈیکل کورسز اور اس کی ایف ایس سی میڈیکل ٹیکنالوجی کے علاوہ میڈیکل ٹیکنالوجی کے بی ایس سی آنرزکو جنہیں ماضی قریب میں امریکہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح متعارف کرایا گیا۔ پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے خاتمہ کی نہیں!!
No comments:
Post a Comment