چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حج انتظامات میں بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرتے ہوئے ایسا ثاتر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے حکومت ٹکراؤپر اُتر آئی ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے حج انتظامات میں بدعنوانی کے مقدمے کی سماعت کی تو سیکریٹری اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ اعلی عہدوں پر فائض کنٹریکٹ ملازمین کے بارے میں وزیر اعظم نے سمری وزارت قانون کو بھجوا دی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ گُزشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وزیر اعظم کی طرف سے اس معاملے میں جو کمیٹی بنائی گئی ہے اُس نے پندرہ افسران کا کنٹریکٹ ختم کرنے کی منظوری دی ہے تو ایسی صورت حال میں ابھی تک اُن کا کنٹریکٹ منسوخ نہیں کیے گئے۔
بینچ میں شامل جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے کہا کہ چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے ان افسران کے کنٹریکٹ منسوخ کیے جاتے اور پھر سمری وزارت قانون کو بھجوائی جاتی۔
سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اُنہوں نے اس ضمن میں وزیر اعظم سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے چونکہ وہ بیرون ملک دورے پر ہیں اس لیے اُن سے رابطہ نہیں ہورہا جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وہ سترہ فروری تک عدالت کو اس ضمن میں آگاہ کریں کہ عدالتی احکامات پر ابھی تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔
اُنہوں نے کہا کہ حکومت کنٹریکٹ پالیسی کا از سرنو جائزہ لے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل وسیم احمد اور سندھ پولیس کے سربراہ صلاح الدین بابر خٹک کے کنٹریکٹ سے متعلق فائلوں کا جائزہ لیا ہے اور ان دونوں افراد کو قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کنٹریکٹ پر رکھا گیا۔
اُنہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ پولیس کو وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے زبانی احکامات پر سنہ دوہزار نو میں کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جبکہ اس کے بعد دوبارہ زبانی احکامات پر اس کنٹریکٹ میں ایک سال کی توسیع کی گئی۔
اُنہوں نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اُنہوں نے ممبئی حملہ سازش کیس کے مقدمے کی تحقیقات کیں اس لیے اُنہیں کنٹریکٹ پر ایف آئی اے میں تعینیات کیا گیا ہے جبکہ اس مقدمے کا حتمی چالان سابق ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کے دور میں متعلقہ عدالت میں جمع کروایا جاچکا ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کیا تو پھر عدالت ان افراد کے خلاف خود کارروائی کرے گی۔
واضح رہے کہ وسیم احمد کو حج انتظامات میں بدعنوانی کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم سے الگ کردیا گیا تھا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے عدالت سے استدعا کی کہ حج سکینڈل کیس کو کنٹریکٹ ملازمین سے علحیدہ کردیا جائے ۔ عدالت نے یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کنٹریکٹ پر رکھے گئے افسران کی وجہ سے اس مقدمے کی تفتیش خراب ہوئی ہے۔
حج سکینڈل کے مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے طویل رخصت پر چلے گئے ہیں اور وہ ان دنوں کینڈا میں اپنی بیوی کا علاج کروارہے ہیں۔
جسٹس خلیل الرحمن رمدے کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی افسر عدالت کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو یا اُس کا تبادلہ کردیا جاتا ہے یا پھر اُسے رخصت پر بھیج دیا جاتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ آئین میں ترمیم کرالی جائے کہ بدعنوانی میں ملوث کسی بھی بااثر آدمی پر عدلیہ ہاتھ نہیں ڈالے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اس مقدمے کے اہم ملزم احمد فیض کے انٹرپول نے وارنٹ جاری کردیے ہیں۔ عدالت نے تفتیشی ٹیم کو ہدایت کی کہ اس مقدمے میں ہونے والی پیش رفت کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ اس مقدمے کے اہم ملزم اور سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی ان دنوں عبوری ضمانت پر ہیں۔ عدالت نے اس مقدمے کی سماعت یکم مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔
No comments:
Post a Comment