امریکی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستانی عدالت میں ثابت کرے گی کہ دو پاکستانی شہریوں کے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے۔
چھتیس سالہ ریمنڈ ڈیوس نے ستائیس جنوری کو لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ قدم اپنی حفاظت میں اٹھایا تھا کیونکہ وہ دونوں انہیں لُوٹنا چاہتے تھے۔
تاہم پاکستانی پولیس نے ان کے اس دعوے کو رد کر دیا ہے اور ان پر قتل اور ناجائز اسلحہ رکھنے کے دو مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
عدالت نے انہیں گزشتہ جمعہ کو چودہ دن کے لیے ریمانڈ پر بھیج دیا ہے اور حکومتِ پاکستان سے کہا ہے کہ وہ امریکی حکومت کے ان دعوؤں کی تصدیق یا تردید کرے کہ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے۔
پیر کو امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان پی جے کراؤلی نے صحافیوں کو بتایا کہ ’جمعرات کو ہم عدالت میں درخواست داخل کریں گے جس میں تصدیق کی جائے گی کہ انہیں سفارتی استثنٰی حاصل ہے اس لیے انہیں رہا کیا جائے‘۔
جمعرات کو ہم عدالت میں درخواست داخل کریں گے جس میں تصدیق کی جائے گی کہ انہیں سفارتی استثنٰی حاصل ہے اس لیے انہیں رہا کیا جائے۔
فلپ کراؤلی
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دے کیونکہ انہیں سفارتی استثنٰی حاصل ہے۔ پی جے کراؤلی نے کہا کہ ’ہم بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتے ہیں اور پاکستان سمیت دیگر مماالک سے بھی یہی امید کرتے ہیں‘۔
ریمنڈ ڈیوس اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں اور ان کے مقدمے کی اگلی سماعت پچیس فروری کو ہونا ہے۔
یہ تاحال واضح میں نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور میں کیا کر رہے تھے اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے نے اب تک صرف یہی کہا ہے کہ وہ امریکی سفارتخانے کے ملازم ہیں اور انتظامی اور تکنیکی عملے کا حصہ ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی محکمۂ دفاع کے ریکارڈ کے مطابق ریمنڈ ڈیوس امریکی سپیشل فورسز کے سابق رکن ہیں اور انہوں نے دس سالہ ملازمت کے بعد سنہ 2003 میں امریکی فوج چھوڑی تھی۔
No comments:
Post a Comment